محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
’’یا محمد‘‘ ،’’یا رسول اللہ‘‘ کہنا مسئلہ(۳): اگر کوئی شخص ’’یا محمد‘‘ اور ’’یار سول اللہ‘‘ کہتا ہے درود وسلام کے ساتھ یا بلادرود وسلام، اس اعتقاد کے ساتھ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میری آواز کو بذاتِ خود ہروقت ، ہر جگہ سنتے ہیں، یا یہ کہ بنفس نفیس خودمجلسِ درود میں تشریف فرما ہوتے ہیں، تو اس شخص کا یہ اعتقاد ناجائز ہی نہیں بلکہ موجبِ کفر ہے، اس لیے کہ یہ صورتیں غیر اللہ کے لیے علمِ غیب کو ثابت کرنے کو متضمن ہیں اور علمِ غیب اللہ تعالی شانہ کی صفتِ خاصہ ہے، اور اگر یہ عقیدہ نہیں ہے بلکہ محض تخیل کے طور پر شاعرانہ اور عاشقانہ انداز میں خطاب کرتا ہے، جیسا کہ اہل معانی وبلاغت نے بیان کیا ہے کہ بعض ------------------------------ =والأسباب لیست بمستقلۃ ، أو المعنی لا تحسبوا النصر من الملائکۃ علیہم السلام فإن الناصر ہو اللہ تعالی لکم وللملائکۃ ، وعلیہ فلا دخل للملائکۃ في النصر أصلاً ، وجعل بعضہم القصر علی الأول إفرادي وعلی الثاني قلبي ، {إن اللہ عزیز} لا یغالب في حکمہ ولا ینازع في قضیتہ۔ {حکیم} یفعل کل ما یفعل حسبما تقتضیہ الحکمۃ الباہرۃ، والجملۃ تعلیل لما قبلہا وفیہا إشعار بأن النصر الواقع علی الوجہ المذکور من مقتضیات الحکم البالغۃ ۔ (۶/۲۵۲) ما في ’’ الحدیث النبوي ‘‘ : عن ابن عباس رضي اللہ عنہما قال : کنت خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوماً فقال : یا غلام ! وإذا سألت فاسأل اللہ ، وإذا استعنت فاستعن باللہ ، واعلم أن الأمۃ لو اجتمعت علی أن ینفعوک بشيء لم ینفعوک إلا بشيء قد کتب اللہ لک ، ولو اجتمعوا علی أن یضروک بشيء لم یضروک إلا بشيء قد کتب اللہ علیک ‘‘۔ (مشکاۃ المصابیح : ۲/ ۴۵۳ ، باب التوکل والصبر) (فتاوی محمودیہ: ۱/۳۶۷)