محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
بسی کی رقم پر زکوۃ واجب ہوگی یا نہیں؟ مسئلہ(۱۰۹): چند لوگوں نے آپس میں مل کر بسّی لگائی، مثلاً دس لوگوں نے دو دو ہزار روپئے بسّیمیں لگائے، پھر قرعہ اندازی کے ذریعہ یہ رقم کسی ایک شخص کے پاس جمع کی گئی، تو اس پر صرف دو ہزارروپئے ہی کی زکوۃ واجب ہوگی ( جو اس کے ذاتی ہے) بقیہ اٹھارہ ہزار کی حیثیت قرض کی ہوگی جس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔(۱)مشترکہ کاروبار کی مالیت پر زکوۃ مسئلہ(۱۱۰): آج کل لمیٹیڈکمپنیوں کا رواج عام ہوچکا ہے جس میں چند اشخاص مشترکہ کاروبار کرتے ہیں ، کمپنی کا مجموعی سرمایہ نصابِ زکوۃ کے بقدر یا اس سے زائد ہوتاہے، لیکن اگر اس کی مجموعی مالیت حصہ دار وں پر تقسیم کیجائے اورہر ایک کے حصہ میں بقدرِ نصاب نہ آتی ہو تو زکوۃ واجب نہیں ہوگی ۔ (۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : قال أصحابنا رحمہم اللہ تعالی: کل دین لہ مطالب من جہۃ العباد یمنع وجوب الزکاۃ سواء کان الدین للعباد کالقرض وثمن المبیع وضمان المتلفات وارش الجراحۃ … الخ ۔ (۱/۱۷۲) (کتاب الفتاوی:۱/۳۲۶) الحجۃ علی ما قلنا: (۲) ما في ’’ رد المحتار‘‘ : قال العلامہ الحصکفي: (ولا تجب) الزکوۃ عندنا (في نصاب) مشترک (من سائمۃ) ومال تجارۃ (وإن صحت الخلطۃ فیہ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وإن تعدد النصاب تجب إجماعاً، ویتراجعان بالحصص، وبیانہ في الحاوي، فإن بلغ نصیب أحدہما نصاباً زکاہ دون الآخر۔’’درمختار‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔ قولہ : (في نصاب مشترک) المراد أن یکون بلوغہ النصاب بسبب الاشتراک وضم أحد المالین إلی الآخر بحیث لا یبلغ مال کل منہما بانفرادہ نصاباً ۔ (۳/۲۳۵؍۲۳۶، باب زکاۃ المال)