محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
بیوی کو خون دینے سے نکاح میں کوئی نقص نہیں آتا مسئلہ(۲۵۷): بیوی کو خون دینے سے نکاح میں کوئی نقص نہیں آتا ، اور جس عورت کو نکاح سے قبل خون دیا ہو اس سے بھی نکا ح جائز ہے ، کیوں کہ خون دینے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوتی ۔ (۱) ------------------------------ =ما فی ’’الہدایۃ ‘‘: وإذ ا ارتد أحد الزوجین عن الإسلام وقعت الفرقۃ بغیر طلاق وہذا عند أبي حنیفۃ وأبي یوسف رحمہما اللہ ۔ (۲/۳۲۸، کتاب النکاح ، باب نکاح أہل الشرک، رد المحتار : ۴/۳۶۶، کتاب النکاح، باب نکاح الکافر، الفتاوی التاتارخانیۃ : ۲/۳۸۹، کتاب النکاح، نوع منہ نکاح لمرتد، بدائع الصنائع : ۳/۴۶۵، کتاب النکاح، فصل في عدم نکاح الکافر المسلمۃ، اللباب في شرح الکتاب : ۲/۱۶۱، کتاب النکاح ، الجوہرۃ النیرۃ : ۲/۱۴۷ ، مطلب في نکاح أہل الشرک) ما فی ’’ قواعد الفقہ‘‘: وبقاعدۃ فقہیۃ: الإسلام یعلو ولا یعلی علیہ۔(ص۵۸) (خیر الفتاوی:۴/۲۶۳، آپ کے مسائل اور ان کا حل:۵/۳۴۰) الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما فی ’’ الکتاب ‘‘: قال تعالی:{ فمن اضطر في مخمصمۃ غیر متجانف لإثم فإن اللہ غفور رحیم} ۔ (المائدۃ : ۳) ما فی ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘: یجوز للتعلیل شرب الدم والبول وأکل المیتۃ للتداوي إذا أخبرہ طبیب مسلم أن شفائہ فیہ ولم یجد من المباح ما یقوم مقامہ ۔ (۵/ ۳۵۵ ، الباب الثاني عشر فی التداوی والمعالجات) ما فی ’’ الأشباہ والنظائر ‘‘: بقاعدۃ فقہیۃ : ’’ الضرورات تبیح المحظورات ‘‘ ۔’’ ما أبیح للضرورۃ یتقدر بقدرہا ‘‘ ۔ (۱/۳۰۷؍ ۳۰۸)