محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
دعوتِ ختان کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں مسئلہ(۱۵): دعوتِ ختان کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں، نہ تو نصاً ا س کا کہیں ذکر ہے ، اور نہ ہی ضابطہ ٔ مشروعیتِ دعوت:’’ الدعو ۃ في السرور‘‘ میں داخل ہے، پھر اس کو سنت سمجھنے میں بدعت ہونے کی قباحتِ شنیعہ ، مزید تبدیع(بدعت) کے لئے عدمِ ثبوت ہی کافی تھا،اور یہاں تو قرون مشہود لہا بالخیر میں صراحت سے اس پر نکیر موجود ہے ، اس لیے یہ دعوت جائز نہیں۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما فی ’’ المسند للإمام أحمد بن حنبلؒ‘‘: عن عبید اللہ أو عبد اللہ بن طلحۃ بن کریز عن الحسن قال: دعي عثمان بن أبي العاص إلی ختان فأبی أن یجیب، فقیل لہ فقال: إنا کنا لا نأتي الختان علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا ندعی لہ۔ (۱۳/۵۴۳، رقم الحدیث:۱۷۸۳۳، مکتبۃ دارالحدیث قاہرۃ) ما فی ’’ مشکوٰۃ المصابیح ‘‘: عن ابن عباس قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:’’ فإن خیر الحدیث کتاب اللہ، وخیر الہدي ہدي محمد صلی اللہ علیہ وسلم، وشر الأمور محدثاتہا، وکل بدعۃ ضلالۃ‘‘۔(ص: ۲۷) ما فی ’’ الصحیح البخاری ‘‘: عن عائشۃ قالت: قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم:’’ من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد‘‘۔ (۱/۳۷۱، مشکوۃ المصابیح:ص۲۷) ما فی ’’ رد المحتار علی الدر المختار ‘‘: (ومبتدع) أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندۃ بل بنوع شبہۃ۔ ’’درمختار‘‘۔ قولہ: (وہي اعتقاد) ۔۔۔۔۔۔ وحینئذ فیساوي تعریف الشمني لہا بأنہا ما أحدث علی خلاف الحق الملتقی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من علم أوعمل أو حال بنوع شبہۃ واستحسان وجعل دیناً قویماً وصراطاً مستقیماً ۔ (۲/۲۹۹،کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب: البدعۃ خمسۃ أقسام)