محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
اشیاء منقولہ اور استعمالی اشیاء کا اجارہ مسئلہ(۳۳۹) : استعمالی اشیاء کا اجارہ جائز ہے ، بشرطیکہ مدتِ اجارہ اور اجرت متعین ہو ، مثال کے طور پر کوئی شخص ڈیکوریشن(Decoration)کا سامان، یا اسلحہ، یا اشیاء منقولہ میں سے کوئی چیز کرایہ پر لے، تو اس کے لئے ضروری ہے کہ مدتِ اجارہ اور اجرت کو متعین کرے ، نیز اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس چیزکا استعمال عرف وعادت کے مطابق ہی کرے ، مثلاً: گاڑی کرایہ پر لی تو اس کو ان راستوں پر چلائے جہاں عام طورپر گاڑیاں چلتی ہیں ، نہ کہ ایسی جگہ جہاں گاڑیاں نہ چلتی ہوں، لہذا اگر غیر معروف راستہ پر گاڑی چلانے کی وجہ سے کوئی نقصان ہوجائے تو مستأجر ضامن ہوگا، اسی طرح اگر موجر اور مستاجر کے مابین یہ طے ہوجائے کہ وہ اشیاء ماجور کو فلاں کام کے لئے استعمال کرے گا، لیکن عقد کرنے کے بعد مستاجر نے کرایہ پر لی ہوئی شیٔ سے وہ کام نہ لیا،بلکہ دوسرے کام میں استعمال کیا اور کوئی نقصان ہوگیا، تو اس صورت میں بھی مستاجر ضامن ہوگا۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما فی ’’درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام ‘‘ : یجوز إجارۃ الألبسۃ والأسلحۃ والخیام وأمثالہا من المنقولات إلی مدۃ معلومۃ في مقابل بدل معلوم ۔ (۱/۶۱۹،کتاب الإجارۃ، الفصل الثالث في إجارۃ العروض) ما فی ’’ بدائع الصنائع ‘‘: إذا استأجر دابۃ لیحمل علیہا عشرۃ مخاتیم شعیر، فحمل علیہا عشرۃ مخاتیم حنطۃ فعطبت، یضمن قیمتہا، لأن الحنطۃ أثقل من الشعیر، ولیست من جنسہ، فلم یکن ماذوناً فیہ أصلاً، فصار غاصباً، کل الدابۃ متعدیاً علیہا فیضمن کل قیمتہا ولا أجر علیہ، لأن الأجر مع الضمان لا یجتمعان، لأن وجوب الضمان لصیرورتہ غاصباً، ولا أجرۃ علی الغاصب علی أصلنا ۔ (۶/۶۰ ، کتاب الإجارۃ، فصل في حکم الإجارۃ)