محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
بحالتِ مجبوری عارضی مانعِ حمل تدابیر کا اختیار کرنا مسئلہ(۳۷۶): موجود بچہ کی پرورش ، رضاعت ، اور نشو نما میں اگر ماں کے جلد حاملہ ہونے کی وجہ سے نقصان کا خطرہ ہے، تو ایسی صورت میںبچوں میں مناسب وقفہ قائم رکھنے کے لیے، عارضی مانعِ حمل تدابیر اختیار کرنا جائز ہے ۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما فی ’’ رد المحتار علی الدر المختار ‘‘: وفي الفتاوی: إن خاف من الولد السوء في الحرۃ یسعہ العزل بغیر رضاہا لفساد الزمان ، فلیعتبر مثلہ من الأعذار مسقطاً لإذنہا اہـ۔ (۴/۳۳۵،کتاب النکاح، باب نکاح الرقیق، مطلب في حکم العزل) ما فی ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘: امرأۃ مرضعۃ ظہر بہا حبل وانقطع لبنہا وتخاف علی ولدہا الہلاک ولیس لأبی ہذا الولد سعۃ حتی یستأجر الظئر یباح لہا أن تعالج في استنزال الدم ما دام نطفۃ أو مضغۃ أو علقۃ لم یخلق لہ عضو وخلقہ لا یستبین إلا بعد مائۃ وعشرین یوماً۔ (۵/۳۵۶،کتاب الکراہیۃ ، الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات) ما فی ’’ فقہ النوازل ‘‘: أما إذا کان منع الحمل لضرورۃ محققۃ، ککون المرأۃ لا تلد ولادۃ عادیۃ وتضطر معہا إلی إجراء عملیۃ جراحیۃ لإخراج الولد، أو کا ن تأخیرہ لفترۃ ما لمصلحۃ یراہا الزوجان، فإنہ لا مانع حینئذ من منع الحمل أو تأخیرہ؛ عملاً بما جاء في الأحادیث الصحیحۃ، وما روي عن جمع من الصحابۃ رضوان اللہ علیہم من جواز العزل، وتمشیاً مع ما صرح بہ بعض الفقہاء من جواز شرب الدواء لإلقاء النطفۃ قبل الأربعین ، بل قد یتعین منع الحمل في حالۃ ثبوت الضرورۃ المحققۃ۔ (۴/۱۶، وثیقۃ رقم :۲۲۰، منع الحمل وتحدید النسل)