محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
حقیقت میں یہ تعارض نہیں بلکہ یہ بتانا منظور ہے کہ دنیاوی مال واسباب جتنے بھی ہیں یہ انسان کی حقیقی منزل اورمنزلِ مقصود نہیں ، بلکہ منزلِ مقصود آخرت اور آخرت میں اللہ تعالی کی خوشنودی اور رضا ہے ، اس دنیا میں زندہ رہنے کے لیے ان اسباب کی ضرورت ہے ان کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا ، لہذا جب تک انسان ان اسباب کو محض راستہ کا ایک مرحلہ سمجھ کر استعمال کرے منزلِ مقصود قرار نہ دے ، تو اس وقت تک یہ خیر ہے ، اور جب انسان ان کومنزلِ مقصود بنالے تو جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگاکہ اس منزلِ مقصود کو حاصل کرنے کے لیے ہر جائز وناجائز طریقہ اختیار کرنا شروع کردے ، تو یہ فتنہ اور متاع الغرور ہے ، لہذا جب تک دنیا اور اس کا مال واسباب محض وسائل کے طورپر استعمال ہو اور جائز حدود میں استعمال کیا جائے تو اس وقت تک اللہ کا فضل اور خیر ہے ، اور جب اس کی محبت دل میں گھر کر جائے اور انسان اس کو منزلِ مقصود بنالے اور اس کو حاصل کرنے کے لیے ہر جائز وناجائز طریقہ اختیار کرنا شروع کردے تو وہ فتنہ اور متاع الغرور یعنی دھوکہ کا سامان ہے۔دنیا میں مال واسباب کی مثال: علامہ جلال الدین رومی رحمہ اللہ نے بڑی پیاری مثال دی ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ دیکھودنیا کے مال واسباب جتنے بھی ہیں ان کی مثال پانی کی سی ہے اور تیری مثال اے انسان! کشتی کی سی ہے ، کشتی بغیر پانی کے نہیں چل سکتی ، کشتی کے لیے پانی اسی وقت تک فائدہ مند ہے جب تک کشتی کے چاروں طرف ہو ، نیچے ہو ، دائیں ہو، بائیں ہو، لیکن اگر پانی اندر آجائے تو اس کو ڈبودے گا اور غرق کردے گا۔ ؎ آب اندر زیر کشتی پشتی است آب در کشتی ہلاکِ کشتی است