محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
جعالۃ کی تعریف اور اس کے جواز کی شرطیں مسئلہ(۳۵۹): لغت میں… جعالۃ اس کو کہاجاتا ہے ،کہ کوئی انسان کسی دوسرے کیلئے کسی کام کے عوض کچھ مال مقرر کردے ۔ (۱) اصطلاح میں… جعالۃ کہتے ہیں ،کسی متعین عوض کو ،کسی معلوم یا مجہول عمل کے کرنے پر لازم کرنا ۔ (۲) جعالۃ کی صورت یہ ہوتی ہے ،کہ کوئی شخص یہ اعلان کردے کہ جو شخص میرا گمشدہ سامان لادے گا،میں اس کو اپنی طرف سے اتنا اتنا انعام دوں گا ۔ (۳) ------------------------------ =ما فی ’’رد المحتار علی الدر المختار‘‘: قال في التاترخانیۃ: وفي الدلال والسمسار یجب أجر المثل وما تواضعوا علیہ أن في کل عشرۃ دنانیرکذا ، فذاک حرام علیہم ، وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمۃ عن أجرۃ السمسار؟ قال: أرجو أنہ لا بأس بہ، وإن کان في الأصل فاسداً لکثرۃ التعامل، وکثیر من ہذا غیر جائز، فجوزہ لحاجۃ الناس إلیہ کدخول الحمام ۔ (۹/۸۷) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : وفی الدلال والسمسار یجب أجر المثل ۔ (۴/۴۵۱ ، خلاصۃ الفتاوی : ۳/۱۱۶ ، مکتبہ رشیدیہ) (اسلامی قانون اجارہ:۱۱۰) الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما فی ’’ الفقہ الإسلامی وأدلتہ ‘‘: تعریف الجعالۃ : الجعالۃ أو الجعل أو الجعلیۃ لغۃ : ہي ما یجعل للإنسان علی فعل شيء أو ما یُعطاہ الإنسان علی أمر یفعلہ ، وتسمی عند القانونیین الوعد بالجائزۃ (أي المکافأۃ أو الجعل أو الأجر المعین) فہي عقد أو التزام بإرادۃ منفردۃ ۔ (۵/۳۸۶۴ ، الفصل الرابع الجعالۃ) (۲) ما في ’’ الفقہ الإسلامی وأدلتہ ‘‘ : وشرعاً : التزام عوض معلوم علی عمل معین ، أو مجہول ، عسر عملہ ۔ (۵/۳۸۶۴) (۳) ما فی ’’ الفقہ الإسلامی وأدلتہ ‘‘ :مثل قول القائل : من رد عليّ دابتي الشاردۃ ، أو متاعي الضائع ، أو بنی لي ہذا الحائط أو حفر لي ہذا البئر حتی یصل إلی الماء ، أو خاط لي قمیصاً أو ثوباً ، فلہ کذا ۔ (۵/۳۸۶۴)=