محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
کے زمانہ سے لیکر آج تک بغیر کسی نکیر کے چلا آرہا ہے ، لہذا اس اجماع سے اختلاف کرنے والے کا کوئی اعتبار نہیں ، اسی سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قیاس اس جگہ متروک ہے، کیوںکہ اللہ تعالی نے بندوں کے حوائج کی وجہ سے عقود کو مشروع کررکھا ہے اور اجارہ کی حاجت وضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ پتہ چلا کہ عقدِ اجارہ بھی دوسرے معاملات کی طرح جائز اور درست ہے۔ (بدائع الصنائع ، شرح المنتہی الإرادات للبہوتی الحنبلی:۳/۳۵۰ ، بدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد لإبن رشد المالکی :۱/۱۸۱، الحاوی الکبیرللماوردي:۷/۳۸۸، الکتاب الأم للشافعي :۴/۵۸، کشاف القناع:۳/۵۳۷، المغنی والشرح الکبیر لإبن قدامہ المقدسی:۶/۲۔۳)اجارہ کی فضیلت ، اہمیت اور فوائد:… عقدِ اجارہ زمانۂ قدیم سے ہوتا چلا آرہا ہے ، جیسا کہ حضرت موسی علیہ السلام کے واقعہ سے ظاہر ہے ،ہر زمانہ میں اجارہ کو اچھی خاصی اہمیت حاصل رہی ہے ، کیوں کہ یہ انسانی زندگی کی ضرورت کے ساتھ ساتھ معاشرہ اور ملک کی ضرورت ہے۔ جہاں معیشت کے دیگر شعبے مثلاً بیع ، ملازمت ، صنعت وحرفت وغیرہ زمانہ کی اہم ضروریات اور معیشت کی بنیادیںہیں وہیں عقدِ اجارہ بھی معیشت کا ایک اہم شعبہ ہے۔ معاشرہ کی بے شمار ضروریات اجارہ سے متعلق ہیں۔ اجارہ ملازمت ، مزدوری ، کرایہ داری ، خدمات ، کارخانے ، دوکان ، مکان اور اس کے علاوہ معاشرہ کی بے شمار ضروریات پر مشتمل و محیط ہے۔