محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
بینک سے قرض لیکر گاڑی خریدنا مسئلہ(۲۹۷): بینک کے قرض سے ٹرک ، ٹریکٹر ، بس یا کار وغیرہ خریدنا ، مثلاً ایک شخص پچاس ہزار (50,000)روپئے میں کمپنی سے کوئی گاڑی خریدتا ہے ، اور وہ رقم بینک از خود کمپنی کو ادا کرتا ہے، اور یہ شخص گاڑی کا مالک ہوجاتا ہے، مگر بینک خریدار سے اپنے ضابطے کے تحت قسط وارپچپن ہزار(55000) روپئے وصول کرتا ہے ، توشرعاً سود کی بنا پر یہ صورت ناجائز ہے ۔ (۱) جواز کی صورت یہ ہے کہ بینک خریدار کے ساتھ اپنا ایک آدمی بھیجے، اور کمپنی سے پچاس ہزار میں گاڑی خریدلے، پھر بینک کافرستادہ بینک کے ضابطے کے تحت پچپن ہزار میں یہ گاڑی خریدار کے حوالے کرے، تو شرعاً یہ شکل بیعِ مرابحہ کے دائرہ میں داخل ہوکر جائز ہوگی ، یا بینک اس خریدار کو اپنا وکیل بنائے جو بینک کی طرف سے پچاس ہزار میں خرید کر بینک کے حوالے کرے ،پھر بینک اس گاڑی کوپچپن ہزار میں اس شخض کے ہاتھ فروخت کردے، اور یہ خریدارپچپن ہزارروپئے قسط وار بینک کو ادا کرے تو شرعاً معاملہ کی یہ شکل بھی جائز ہوگی ۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما في ’’ موسوعۃ فتح الملہم مع التکملۃ کاملۃ ‘‘: عن علي مرفوعاً قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :’’ کل قرض جر منفعۃ فہو ربا ‘‘ ۔ (۱/۵۷۴ ، کتاب المساقات والمزارعۃ ، اعلاء السنن : ۱۴/ ۵۶۷ ، کتاب الحوالۃ ، باب کل قرض جر منفعتہ فہو ربا) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘: المرابحۃ بیع بمثل الثمن الأول وزیادۃ ربح إلی أن جائز اھـ۔ (۳/۱۶۰) (۲)ما في ’’ رد المحتار علی الدر المختار ‘‘: (المرابحۃ بیعما ملکہ بما قام علیہ وبفضل) ثم بـاعہ مرابحۃ علی تلک القیمۃ جاز۔’’ درمختار ‘‘۔ أي بزیادۃ ربح علی أن تلک القیمۃ التی=