محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
طویل عرصہ کے دن اور رات والے علاقوں میں روزے کے اوقات کاتعین مسئلہ(۲۲۰): جہاں پر طویل عرصہ کا دن اور پھر اسی طرح رات کا سلسلہ رہتا ہے وہاں جس طرح نماز کے اوقات کا اندازہ سے تعیین کیا جاتا ہے اسی طرح ماہ رمضان کی آمد اور روزے کے اوقات کا بھی تعیین کیا جائے گا ، لیکن سب سے آسان صورت یہ ہے کہ ایسے مقام کے باشندوں کو ان مقامات کے مطابق عمل کرنا چاہیے جو ان سے قریب ہیں، اور وہاں معمول کے مطابق دن رات کی آمد ورفت کا سلسلہ ہے ۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما في ’’ السنن لأبي داود‘‘: ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الدجال فقال: ’’ إن یخرج وأنا فیکم فأنا حجیجہ دونکم ، وإن یخرج ولست فیکم فامرء حجیج نفسہ ، واللہ خلیفتي علی کل مسلم ، فمن أدرکہ منکم فلیقرأ علیہ بفواتح سورۃ الکہف ، فإنہا جوارکم من فتنتہ ، قلنا : وما لبثہ في الأرض ؟ قال : أربعون یوماً ، یوم کسنۃ ، ویوم کشہر ، ویوم کجمعۃ ، وسائر أیامہ کأیامکم ، فقلنا : یا رسول اللہ ! ہذا الیوم الذي کسنۃ أتکفینا فیہ صلاۃ یوم ولیلۃ ؟ قال : لا، أقدروا لہ قدرہ ‘‘ ۔ (ص۵۹۳، کتاب الفتن ، باب خروج الدجال) ما في ’’ بذل المجہود ‘‘ : إنما أمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالتقدیر بأن یقدر للصلاۃ قدر الیوم واللیلۃ ، وہو أربعۃ وعشرون ساعۃ ، لأن طول یوم الدجال کان لشعبذۃ منہ لا حقیقۃ ، فلہذا أمر بأن یقدروا لہ ، وأما في البلاد التي یکون الیوم أطول فالصلاۃ فیہ مقدرۃ علی قدرہ لأنہ علی حقیقتہ ۔ (۱۲/۳۷۳، کتاب الملاحم ، باب خروج الدجال)=