محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
مسابقاتِ قرآنیہ واحادیثِ نبویہ کا شرعی حکم مسئلہ (۴۰): حضورِ اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کی تیاری اور اس پر ابھارنے کیلئے اپنے اصحاب کے درمیان گھوڑ دوڑ کا مسابقہ کرایا(۱)، تا کہ دین کا قیام مضبوط ہو جائے، اسی طرح سے مسابقاتِ قرآنیہ کرنا شرعاً جائز وممدوح ہے، کیوں کہ جس طرح سے جہاد دین کے قیام کا ذریعہ ہے ، اسی طرح سے مسابقاتِ قرآنیہ واحادیثِ نبویہ، قرآن وحدیث کے علوم کی حفاظت کا ذریعہ ہے اور مسابقات کے ذریعے ان ہی علوم کے حاصل کرنے پر ابھارا جاتا ہے جو حفاظتِ دین میں مفید ومعاون ہوں ۔ (۲) ------------------------------ =ما في ’’ کنز العمال ‘‘ : عن ابن مسعود رضي اللہ عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال : ’’ من کثر سواد قوم فہو منہم ومن رضي عمل قوم کان شریکاً في عملہ ‘‘ ۔ (۹/ ۱۱، رقم الحدیث : ۳۴۷۳) ما في ’’ الزواجر عن اقتراف الکبائر‘‘ : قال مالک بن دینار رحمہ اللہ : أوحی اللہ إلی نبي من الأنبیاء أن قل لقومک : ’’ لا یدخلوا مداخل أعدائي ، ولا یلبسوا ملابس أعدائي ، ولا یرکبوا مراکب أعدائي ، ولا یطعموا مطاعم أعدائي فیکونوا أعدائي کما ہم أعدائي ‘‘ ۔ (ص۲۵) (فتاویٰ محمودیہ: ۳/۱۷۹) الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما في ’’ عمدۃ القاري ‘‘ : قال ابن التین : أنہ صلی اللہ علیہ وسلم سابق بین الخیل علی حلل أتتہ من الیمن ، فأعطی السابق ثلاث حلل وأعطی الثاني حلتین ، والثالث حلۃ ، والرابع دیناراً ، والخامس درہماً، والسادس فضۃ ، وقال : ’’ بارک اللہ فیک وفي کلکم وفي السابق والفسکل ‘‘ ۔ (۴/۲۳۶ ، باب ہل یقال مسجد بنی فلان) (۲) ما في ’’ رد المحتار‘‘ : أنہ لو قال واحد من الناس لجماعۃ من الفرسان أو لإثنین : من سبق فلہ کذا من مال نفسہ ، أو قال للرماۃ : من أصاب الہدف فلہ کذا جاز لأنہ من باب التنفیل فإذا کان التنفیل من بیت المال کالسلب ونحوہ جاز ، فما ظنک بخالص مالہ؟ =