محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
میں شمار ہوں گے اوران پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی، کیونکہ وجوبِ زکوۃ کے لیے مالِ نامی یا محتملِ نمو ہونا ضروری ہے(۱)، اور اس صورت میں یہ ممکن ہی نہیں ہے۔سونے اور چاندی کا نصاب موجودہ زمانے کے اعتبار سے مسئلہ(۱۱۶): سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ یعنی ۸۷؍گرام ۴۷۹؍ملی گرام، اور چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولہ چھ سو بارہ گرام ۳۵؍ملی گرام ہے، مالِ تجارت یا نقد روپیہ اس وقت نصاب شمار ہوگا جب کہ اس کی مالیت سونے یا چاندی کے مذکورہ وزن کی قیمت کے برابر ہو۔(۲) ------------------------------ (۱) ما في ’’ الفتاوی التاتارخانیۃ ‘‘ : إن مطلق المال لیس بسبب إنما السبب المال النامي، وطریق النماء في الحیوانات النسل وفیما عداہا من المال التجارۃ۔(۲/۳) ما في ’’ حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح ‘‘ : فرضت علی کل حر مسلم مکلف مالک النصاب من نقد ولو تبراً أو حلیاً أو آنیۃ أو مایساوي قیمتہ من عروض تجارۃ فارغ عن الدین عن حاجتہ الأصلیۃ نامٍ ولو تقدیراً … اہـ۔(ص : ۳۸۹) (جدید فقہی مسائل:۱/۲۰۴، فتاوی حقانیہ:۳/۵۳۴) الحجۃ علی ما قلنا: (۲) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ والخلاصۃ والتاتارخانیۃ ‘‘ : تجب في کل مائتي درہم خمسۃ دراہم، وفي کل عشرین مثقال ذہب نصف مثقال مضروباً کان أو لم یکن، مصوغاً أو غیر مصوغ، حلیاً کان للرجال أو للنساء، تبراً کان أو سبیکۃ کذا في الخلاصۃ ۔ (الفتاوی الہندیۃ :۱/۱۷۸، الباب الثالث ، الفصل الأول في زکاۃ الذہب والفضۃ ، خلاصۃ الفتاوی : ۱/۲۳۷، الفتاوی التاتارخانیۃ : ۲/۱۱؍۱۲) ما في ’’ التنویر مع الدر والرد والتبیین ‘‘ : نصاب الذہب عشرون مثقالاً والفضۃ مائتا درہم، کل عشرۃ دراہم وزن سبعۃ مثاقیل ۔’’ تنویر‘‘ ۔ (۲/۲۲۴، تبیین الحقائق : ۲/۷۰) (کفایۃ المفتی:۴/۳۰۱)