محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
ریڈیو کا استعمال جائز ہے یا نہیں؟ مسئلہ(۳۹۸): ریڈیو کا استعمال قرآن پاک کی تلاوت وتفسیر، دینی تقاریر ، خبروں اور حالاتِ حاضرہ پر مطلع ہونے کی غرض سے جائز ہے (۱)، البتہ گانے سننے ، سنانے یا فحش مکالموں کو سننے سنانے کے لئے اس کا استعمال کرنا ناجائز اور حرام ہے ، اور اس سے کلی اجتناب لازم ہے ۔ (۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما فی ’’ الکتاب ‘‘: قال تعالی:{ خلق لکم ما في الأرض جمیعاً} ۔ (البقرۃ : ۲۹) ما فی ’’ الأشباہ والنظائر ‘‘: والقاعدۃ الفقہیۃ: ’’الأصل في الأشیاء الإباحۃ حتی یدل الدلیل علی عدم إباحتہ‘‘۔ [۱/۲۵۲، ۲۵۳] وفیہ أیضاً: ’’ الأمور بمقاصدہا ‘‘ ۔ (۱/۱۱۳) ما فی ’’ انترنیت اور جدید ذرائع ابلاغ ‘‘: فیما لا یعلم فیہ تحریم یجري علی حکم الحل ۔ (الغیاثي لإمام الحرمین) ما فی ’’ فتاوی معاصرہ للدکتور یوسف القرضاوی ‘‘: إن ’’التلیفزیون‘‘ کالرادیو وکالصحیفۃ وکالمجلۃ، کل ہذہ الأشیاء أدوات ووسائل لغایات ومقاصد، لا تستطیع أن تقول: ہي خیر، ولا تستطیع أن تقول: ہي شر، کما لا تستطیع أن تقول : إنہا حلال ، أو إنہا حرام ، ولکنہا بحسب ما توجہ إلیہ، وبحسب ما تتضمنہ من برامج ومن أشیاء ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کالسیف ، فہو في ید المجاہد أداۃ من أدوات الجہاد ، وہو في ید قاطع الطریق أداۃ من أدوات الإجرام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فالشيء بحسب استعمالہ والوسائل دائماً بحسب مقاصدہا۔ ممکن أن یکون ’’التلیفزیون‘‘ من أعظم أدوات البناء والتعمیر الفکري والروحي، والنفسي ، والأخلاقي، والاجتماعي، و’’الرادیو‘‘ و’’الصحیفۃ ‘‘ کذلک ۔ وممکن أیضاً: أن یکون من أعظم أدوات التخریب والإفساد ، فہذا راجع إلی ما یتضمنہ من مناہج وبرامج ومؤثرات۔ (۱/۶۹۴، مشاہدۃ التلیفزیون، مکتبۃ دار القلم) (۲) ما فی ’’ الکتاب ‘‘: قال اللہ تعالی:{ ومن الناس من یشتري لہو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم}۔ (لقمان :۶)=