محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
بل آف ایکسچینج اگر کمیشن پر ہو تو جائز نہیں مسئلہ(۳۰۱): بل آف ایکسچنج(Bill of Exchange) کی صورت یہ ہوتی ہے کہ تاجر کوئی ایک سامان بیچتاہے ، اور مشتری کے نام بل بھیج دیتاہے، کہ آپ کے نام اتنے پیسے واجب ہوگئے ، مشتری اس پر دستخط کردیتا ہے کہ ہاں میں نے یہ سامان خریداہے، اور یہ رقم میرے ذمہ واجب ہوگئی ، میں تین مہینے بعدتمہیں رقم دوں گا،بائع اس کو اپنے پاس رکھ لیتاہے، پھراگر بائع یہ چاہتاہے کہ یہ رقم جلد مل جائے تووہ تیسرے کے پاس جاکر کہتا ہے، یہ بل تم لے لو اور رقم مجھے فی الفور دیدو، اور اس بل کے سہارے تم تین مہینے بعد یہ رقم فلاں آدمی سے لے لینا ،تو اگر اس صورت میں کمیشن ------------------------------ =ما في ’’ بذل المجہود في حل سنن أبي داود ‘‘ :فذہب أکثر أہل العلم إلی جوازہ ، ومنع من ذلک أبوسلمۃ بن عبد الرحمن وابن شبرمۃ ، وکان ابن أبي لیلی یکرہ ذلک إلا بسعر یومہ ولا یعتبر غیرہ السعر ، ولم یبالوا کان ذلک بأغلی أو أرخص من سعر الیوم ۔ (۱۱/۴۷ ، مکتبۃ دار البشائر الإسلامیۃ ، بیروت) ما في ’’ رد المحتار والأشباہ ‘‘ : إن الدیون تقضی بأمثالہا علی معنی أن المقبوض مضمون علی القابض، لأن قبضہ بنفسہ علی وجد التملک ولرب الدین علی المدیون مثلہ ۔ (۵/۶۷۵ ، الأشباہ والنظائر : ۱/۲۲۵) ما في ’’ بحوث في قضایا فقہیۃ معاصرۃ لشیخ الإسلام المفتي محمد تقي العثماني ‘‘ : القرض یجب في الشریعۃ الإسلامیۃ أن تقضی بأمثالھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والذي یتحقق من النظر في دلائل القرآن والسنۃ، ومشاہدۃ معاملات الناس أن المثلیۃ المطلوبۃ في القرض ھي المثلیۃ في المقدار والکمیۃ ، دون المثلیۃ في القیمۃ والمالیۃ ۔ (ص۱۷۴) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : والقرض ہو أن یقرض الدراہم والدنانیر أو شیئاً مثلیاً یأخذ مثلہ في ثاني الحال ۔ (۵/۳۶۶)