محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’من حسن إسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ ‘‘۔آدمی کے عمدہ اخلاق میں یہ ہے کہ وہ لایعنی( فضول،بے سود ، بے کار وغیر مفید) امور کو ترک کردے، لہذا اولیٰ وبہتر یہ ہے کہ اسٹیڈیم میں نہ جائے ۔(۱)انشورنس کمپنی کا ایجنٹ بننا مسئلہ(۳۶۷) : انشورنس کمپنی کا ایجنٹ بننا تعاون علی الاثم کی بنا پر ناجائز ہے ۔ (۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما فی ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘: ولا تجوز الإجارۃ علی شيء من الغناء والنوح والمزامیر والطبل وشيء من اللہو وعلی ہذا الحداء وقراء ۃ الشعر وغیرہ، ولا أجر في ذلک، وہذا کلہ قول أبي حنیفۃ وأبي یوسف ومحمد رحمہم اللہ تعالی ۔ (۴/۴۴۹ ، کتاب الإجارۃ ، الفصل الثالث) ما فی ’’ المجموع شرح المہذب‘‘: ولا تجوز علی المنافع المحرمۃ لأنہ یحرم فلا یجوز أخذ العوض علیہ کالمیتۃ والدم ۔ (۱۵/۳) ما في ’’ المقاصد الشرعیۃ للخادمي ‘‘ : ’’ إن الوسیلۃ أو الذریعۃ تکون محرمۃ إذا کان المقصد محرما وتکون واجبۃ إذا کان المقصد واجباً ‘‘ ۔ (ص/۴۶) (اسلامی قانون اجارہ:۴۲۷) الحجۃ علی ما قلنا: (۲) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ :لقولہ تعالی : {وتعاونوا علی ا لبر والتقوی ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان، واتقوا اللہ إن اللہ شدید العقاب} ۔ (المائدۃ: ۲) ما في ’’ روح المعاني ‘‘ : وأورد صاحب روح المعاني تحت قولہ تعالی: { فلن أکون ظہیراً للمجرمین }۔ حدیثاً، ینادي مناد یوم القیامۃ : أین الظلمۃ وأشباہ الظلمۃ ، وأعوان الظلمۃ ، حتی من لاق لہم دواۃ أو بری لہم قلماً ، فیجمعون في تابوت من حدید ، فیرمی بہم فی جہنم ۔ (روح المعانی :۱۱/۸۵ ، مکتبۃ زکریا)=