محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
دعوتِ ولیمہ لڑکے والے کو کرانا چاہئے مسئلہ(۲۳۸): شادی کے موقع پر لڑکے کی طرف سے دعوتِ ولیمہ مسنون ومشروع ہے ، لڑکی والوں کی طرف سے دعوت کھانے اور کھلانے کا رواج بعد کی رسم ہے ، صحابہ ، تابعین ، اور تبعِ تابعین کے زمانے میں یہ رسم نہیں تھی ، اس لیے یہ طریقہ خلافِ سنت ہے، اور گاؤں برادری کو بھوج (ضیافت/ کھانا) نہ دینے پر لڑکی کے باپ کو طعنہ دینا نا جائز اور گناہِ کبیرہ ہے ۔ اگر لڑکی والے دباؤ میں آکر ، یا رسم ورواج کا پابند ہوکر کھلابھی دیں، یا شہرت وتفاخر کے طور پر کھلائے تو اس کاکھانا حرام ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ’’کسی کا مال بغیر اس کی رضا اور خوشی کے استعمال کرنا حلال نہیں ‘‘ ۔(۱) اسی طرح … حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک دوسرے پر فخر کرنے کے لیے کھلانے ------------------------------ =ما فی ’’ رد المحتار علی الدر المختار ‘‘: أخذ أہل المرأۃ شیئاً عند التسلیم فللزوج أن یستردہ، لأنہ رشوۃ ۔ ’’ درمختار ‘‘ ۔ قال الشامي : قولہ : (عند التسلیم) أي بأن أبی أن یسلمہا أخوہا أو نحوہ حتی یأخذ شیئاً، وکذ لو أبیٰ أن یزوجہا فللزوج الاسترداد قائماً أو ہالکاً لأنہ رشوۃ ۔’’بزازیۃ‘‘۔ (۴/۳۰۷، کتاب النکاح، باب المہر، البحرالرائق:۳/۳۲۵، باب المہر، الفتاویٰ البزازیۃ علی ہامش الہندیۃ: ۴/۱۳۶، الفصل الثاني عشر في الہبۃ) الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ’’ لا یحل مال امرئ إلا بطیب نفس منہ ‘‘ ۔ (مشکوۃ المصابیح : ص۲۵۵ ، باب الغصب والعاریۃ)