محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
اور عدمِ ادائے زکوۃ پر سخت وعید آئی ہے ۔ (۱)زکوۃ طہارت ہے: زکوۃ حبِّ مال اور دولت پرستی جو کہ ایمان کش اور مہلک (روحانی بیماری) ہے ،اس کے گندے اور زہریلے اثرات سے نفس کی تطہیر اور تزکیہ کا ذریعہ ہے، مال ودولت کی حیثیت انسانی معیشت میں خون کی طرح ہے، اگر گردشِ خون میں ذرہ برابر فتور آجائے تو انسانی زندگی کو خطرہ لاحق ہوتاہے، ایسے ہی اگر گردشِ دولت منصفانہ اور عادلانہ نہ ہوتو معاشرہ کی زندگی میں خطرہ لاحق ہوتاہے۔ اس خطرہ کے زوال کے لیے ہی اللہ تعالیٰ نے زکوۃ وصدقات کا نظام قائم کیا، نظامِ زکوۃ کے قیام کے بغیر انسانی معاشرہ اختلالِ زوال سے محفوظ نہیں رہ سکتا،قدرت نے زکوٰۃ کے ذریعے ان پھوڑ ے پھنسیوں کا علاج کیا جو بر بنائے انجمادِ دولت معاشرے کے جسم پر نکل آتی ہیں، اور پھر اس انجماد ِ دولت کا موادتعیش پسندی اور فضول خرچی کی شکل میں نکلتا ہے ۔ (۲) ------------------------------ =ما في ’’ مشکاۃ المصابیح ‘‘ : فقال صلی اللہ علیہ وسلم:’’ إن اللہ لم یفرض الزکوۃ إلا لیطیب ما بقي من أموالکم‘‘۔ (ص :۱۵۶) الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما في ’’القرآن الکریم ‘‘ : قال اللہ تعالی:{والذین یکنزون الذہب والفضۃ ولا ینفقونہا في سبیل اللہ فبشرہم بعذاب ألیم} ۔ [ سورۃ التوبۃ :۳۴ ] ما في ’’ الصحیح البخاري ‘‘ :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من اٰتاہ اللہ مالاً فلم یؤدہ زکوتہ مثل لہ مالہ یوم القیامۃ شجاعاً أقرع لہ زبیبتان یطوقہ یوم القیامۃ ثم یأخذ بلہزمتیہ یعني بشدقیہ ثم یقول: أنا مالک أنا کنزک، ثم تلا : {ولا یحسبن الذین یبخلون} الآیۃ ۔ (۱/۱۸۸، مشکوۃ : ۱۵۵) (۲) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : قولہ تعالی:{خذ من أموالہم صدقۃ تطہرہم وتزکیہم بہا} ۔ (التوبۃ :۱۰۳)=