محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
مرنے کے بعد روحوں کا واپس آنا مسئلہ(۱۱): بعض لوگو ں کایہ عقید ہ ہے کہ مرنے کے بعد روحیں دوبارہ دنیا میں اپنے گھروں کوواپس آتی ہیں، ان کا یہ عقیدہ سراسر غلطی پر مبنی ہے، کیوں کہ مرنے کے بعد مردوں کی ارواح کا مکان پر آنا نہ تو قرآنِ کریم کی کسی آیت سے ثابت ہے او ر نہ تو کسی صریح حدیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے، البتہ مرنے کے بعد ارواح کا مستقَر قرآن وحدیث میں بیان کیا گیا ہے(۱)، چنانچہ اس سلسلے میں اصولی جواب تو وہی ہے جو حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نوراللہ مرقدہ نے دیا ہے، آپ ’’ اشرف الجواب‘‘میں رقمطراز ہیں : ’’اگر مردہ منعم علیہ ہے تو اسے دنیا میں آکر لپٹے پھرنے کی کیا ضرورت ہے اور اگر معذب ہے تو فرشتگانِ عذاب کیونکر چھوڑ سکتے ہیں‘‘۔ ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: = ما في ’’ النبراس شرح شرح العقائد للفرہاري ‘‘: والمنجم إذا ادعی العلم بالحوادث الآتیۃ وکذا الحالیۃ الغائبۃ عن الحواس فہو مثل الکاہن فیکون کافراً وکذلک یکون مصدقہ کافراً ۔ (ص :۳۴۳، باب مسئلۃ علم الغیب، مکتبہ إمدادیہ ملتان) (فتاوی محمودیہ :۱/۵۰۰) (۱) ما في ’’ الکتاب ‘‘ : {کلا إن کتاب الفجار لفی سجین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کلا إن کتاب الأبرار لفی نعیم} ۔ (سورۃ التطفیف : ۷؍۱۸) ما في ’’ التفسیر المظہری ‘‘ : وجہ التطبیق أن مقر أرواح المؤمنین فی علیین أو فی السماء السابعۃ ونحو ذلک کما مر، ومقر أرواح الکفار فی سجین ومع ذلک لکل روح منہا إتصال لجسدہ فی قبرہ ۔ (۱۰/۱۹۶) ما في ’’ الحدیث النبوی ‘‘ : عن أبی ہریرۃؓ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: لا عدوی ولاطیرۃ ولا ہامۃ ولا صفر ۔ (الصحیح للبخاری: ۲/۸۵۷، کتاب الطب، باب لا ہامۃ)=