محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
بجنے والے زیور پہننا شرعاً ممنوع ہے مسئلہ(۴۴۱) : ایسا زیورپہننا جو بجتا ہو مثلاً جھانجن، پایل اور ہاتھ کے کڑے وغیرہ ، شرعاً ناجائز اور ممنوع ہے، کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ جس گھر میں گھنٹی ہو اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے ‘‘۔(۱)عورتوں کا پلاسٹک، المونیم دھات وغیرہ کے زیور پہننا مسئلہ(۴۴۲): عورتوں کیلئے پلاسٹک (Plastik)المونیم (Almonium) سونایا چاندی یا اورکوئی دھات کے زیور پہننا جائز ہے، بشرطیکہ اس میں کسی بد دین کی مشابہت نہ ہو ۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما فی ’’ مشکوٰۃ المصابیح ‘‘: عن بنانۃ مولاۃ عبد الرحمن بن حیان الأنصاري کانت عند عائشۃ إذا دخلت علیہا بجاریۃ وعلیہا جلاجل یصوتن فقالت: لا تدخلنہا عليّ، إلا أن تقطعن جلاجلہا، سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: ’’لا تدخل الملائکۃ بیتاً فیہ جرس‘‘۔ رواہ أبوداود ۔ (ص : ۳۷۹) الحجۃ علی ما قلنا: (۲) ما فی ’’ السنن الترمذی ‘‘ : وقد أخرجہ الترمذیيعن أبي موسی الأشعري أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : ’’ حرم لباس الحریر والذہب علی ذکور أمتي وأحل لإناثہم ‘‘ ۔ (۱/۲۰۳) ما فی ’’ تحفۃ الأحوذی ‘‘ : وکذا حليّ الفضۃ مختص بالنساء إلا ما استثنی للرجال من الخاتم ۔ (۵/۳۸۲) ما فی ’’ أحکام تجمیل النساء ‘‘: وقد ذکر جمیع فقہاء المذاہب إباحۃ تحلي النساء بسائر أنواع المجوہرات والأحجار الکریمۃ دون تفریق، کاللؤلؤ والیاقوت والزبرجد والمرجان والعقیق والزمرد وسائر حلیۃ البحر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لبس القلائد من ذہب أو خرز أو غیرہما من خواص النساء ، فلا یجوز للرجال التشبہ بہن في ذلک۔ (ص: ۳۲۴)