محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
مالکِ مکان کا کرایہ دار سے پیشگی رقم وصول کرنا مسئلہ(۳۳۲): مالکِ مکان یا دوکان پگڑی کی بجائے پیشگی رقم (Advance payment) کے نام سے کچھ رقم کرایہ دار سے وصول کرتا ہے، (۱) اوریہ شرط لگا تا ہے کہ جب کرایہ دار مکان واپس کرے گا تو یہ رقم بھی واپس کردی جائیگی ، البتہ اس پیشگی رقم کوہم امانت تصور کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں شرعاً یہ جائز ہے(۲) ، اس صورت میں کرایہ دار کیلئے اس رقم کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہ ہوگا(۳)، اور اگر کرایہ دار کو مالک یہ رقم بطور قرض کے دیدے تو پھر اس رقم کو چونکہ مکان کی مدتِ اجارہ کے ساتھ خاص کیا جاتاہے ، اس لئے اس قرض میں تاجیل ہوئی، ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما فی ’’ درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام ‘‘ : یعتبر ویراعی کل ما اشترط العاقدان في تعجیل الأجرۃ وتأجیلھا ۔ (۱/۵۴۱ ، المادۃ : ۴۷۳) وأیضاً: تلزم الأجرۃ بشرط التعجیل، یعني لو شرط کون الأجرۃ معجلۃ یلزم المستأجر تسلیمہا، أي إذا شرط إعطاء الأجرۃ معجلۃ سواء أکان ذلک في اثناء عقد الأجرۃ أو بعدہ ۔ (۱/۵۳۱ ، المادۃ : ۴۶۸ ، وکذا فی البحرالرائق : ۸/۷ ، کتاب الإجارۃ) (۲) ما فی ’’ الہدایۃ ‘‘: إن العین المستأجر أمانۃ في ید المستأجر ۔ (۳/۳۰۸، باب إجارۃ الفاسدۃ) (۳) ما فی ’’ النتف فی الفتاوی ‘‘: لا تجوز في الودیعۃ ثمانیۃ أشیاء: لا تباع ولا توہب ولا ترہن ولا یتصدق بہا ولا تؤاجر ولا تعار ولا تستعمل متفقاً علیہ، والثامن لا تودع إلا من کان في عیالہ في قول أبي حنیفۃ وأبي یوسف ومحمد وفي قول ابن أبي لیلی تودع ۔ (ص۳۵۱ ، کتاب الودیعۃ ، ما لا تجوز الودیعۃ فیہ ، وکذا في الفتاوی الہندیۃ : ۴/۳۳۸ ، کتاب الودیعۃ وہو مشتمل علی عشرۃ أبواب ، وکذا في الخلاصۃ : ۴/۲۹۱ ، کتاب الودیعۃ ، الفصل الأول ، جنس آخر)