محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
گاہکوں کے لیے ترغیبی انعامات مسئلہ(۲۷۵): بسااوقات بائع مبیع پر ترغیبی انعام رکھتا ہے، اس صورت میں مبیع اور ثمن دونوں متعین ہوتی ہیں، اور ہر خریدار کو اپنی مبیع حاصل ہوتی ہے، کمپنی اپنے منافع میں سے انعام دیتی ہے، لہذا بیع کی یہ صورت جائز ہے، لیکن اس وقت مکروہ ہوگی جب کہ مشتری کو مبیع کی ضرورت نہ ہواور وہ محض انعام کی طمع ولالچ میں اس چیز کوخریدے۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما في ’’ فقہ وفتاوی البیوع ‘‘ :أن یقول التاجر : من اشتری مني ألف مثلاً فلہ جائزۃ مقدار ہکذا ، فہنا الجائزۃ معلومۃ والقدر معلوم ، فہذا لیس فیہ محظور من حیث الشکل الظاہر، لکن قد یکون فیہ محظور من جہۃ المشتري ، فربما یشتري ما تبلغ قیمتہ الألف ولیس لہ حاجۃ کاملۃ فیما اشتراہ ولکن من أجل الجائزۃ ، فیضع مالہ طلباً للحصول علی ہذا الجائزۃ ۔ (ص : ۲۸۱) ما في ’’ نوازل فقہیۃ معاصرۃ للشیخ خالد سیف اللہ الرحماني‘‘ : بناء علی تعیین المبیع والثمن ، وحصول کل مشتری علی مبیعہ المطلوب وتوزیع الجوائز من قبل الشرکات من مکاسبہا الخاصۃ ، یجوز ہذا العمل ، ولوکان العوض الحاصل لأحد الجانبین مجہولاً أو محتملاً ویتلقی الواحد ویحرم الثاني یکون ذلک نوعا من المیسر ویحرم ، لکن الصورۃ المذکورۃ ہي ’’ إحقاق بعض وإنجاح بعض‘‘ حسب قول الجصاص وغیر شاملۃ للمیسر والقمار ، فلا بأس فیہا، وہذا ہو رأي العلامۃ المفتي محمد شفیع من کبار علماء ہذا العصر۔ (ص۳۲۷، البیع بالتقسیط ، الجوائز المغریۃ للعملاء والزبائن) ما في ’’ أحکام القرآن للجصاص ‘‘ : وما ذکرہ اللہ تعالی من تحریم المیسر - وہو القمار - یوجب تحریم القرعۃ في العبید یعتقہم المریض ثم یموت ، لما فیہ من القمار وإحقاق بعض=