محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
حدیث میں’’طلب العلم ‘‘سے مراد علمِ دین ہے نہ کہ علمِ دنیوی مسئلہ(۲۰): آج کل تعلیم گاہوں میں جو علم پڑھاجاتا ہے وہ علم نہیں بلکہ ہنر، پیشہ اور فن ہے، وہ بذاتِ خود نہ اچھا ہے نہ برا، اس کا انحصار اس کے صحیح یا غلط مقصد اور استعمال پر ہے، حدیث میں جس علم کو فرض قرار دیا گیا ہے اس سے علمِ دین مراد ہے جو کہ اصل ہے ، مثلاً: قرآن،تفسیرِ قرآن، حدیث، فقہ وغیرہ، اور اسی کے حکم میں وہ علم بھی مراد ہوگا جو دین کے لیے وسیلہ وذریعہ کی حیثیت رکھتا ہو جیسے نحو ، صرف ، بلاغت، منطق وقراء ۃ وغیرہ ۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما في ’’ مرقاۃ المفاتیح‘‘: لقولہ علیہ السلام :’’ طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ‘‘۔ قال المنلا علي القاري : (طلب العلم) أي الشرعي (فریضۃ) أي مفروض فرض عین (علی کل مسلم) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قال الشارح : المراد بالعلم ما لا مندوحۃ للعبد من تعلمہ کمعرفۃ الصانع والعلم بوحدانیتہ ونبوۃ رسولہ ، وکیفیۃ الصلاۃ فإن تعلمہ فرض عین ۔ (۱/۴۳۴، کتاب العلم ، الفصل الثاني ، رقم الحدیث : ۲۱، المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند ، وکذا في فتح الباري : ۱/۱۷۸،کتاب العلم ، باب فضل العلم ، رقم الحدیث : ۵۹ ، مکتبۃ شیخ الہند دیوبند ، وکذا في رد المحتار: ۱/۱۲۱، مقدمۃ ، قبیل مطلب في فرض الکفایۃ)