محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
صورت میں مستاجر اول، مستاجر ثانی سے اصل عقد سے زیادہ کرایہ وصول کرسکتا ہے، اور اس کا یہ اضافی کرایہ وصول کرنا جائز ہوگا ۔ (۲) …دوسری صورت حنفیہ کے نزدیک اس عقد کے جائز ہونے کی یہ ہے کہ جس چیز کو کرایہ پر لیا گیا ہے اور اس کا کرایہ جس کرنسی میں طے ہوا ہے ، مستاجرآگے کسی اور کو اس کے علاوہ کسی اور کرنسی میں کرایہ پردیدے ، مثلاً زید نے زمین کرایہ پر لی اورپاکستانی روپئے میں کرایہ طے کیا گیا ، اب زید اگر عمرو کو یہی زمین اضافی کرایہ کے ساتھ دینا چاہتا ہے تو وہ پاکستانی کرنسی کے علاوہ کسی اور کرنسی میںمثلاً ریال ، ڈا لر (Doller)یا پاؤنڈ(Pound)وغیرہ میں آگے کسی اورکو کرایہ پر دیدے ، او ر اضافی کرایہ وصول کرلے ، یہ بالاتفاق جائز ہوجائے گا، حضراتِ حنفیہ کے نزدیک ان دونوں صورتوں میں جواز کی علت یہ ہے کہ مستاجرجب روپئے کے بدلہ ڈالر(Doller)یا پاؤنڈ (Pound) دیے، تو اختلافِ جنس کی وجہ سے اس طرح کرایہ پر دینااوراضافی رقم کا وصول کرنا جائز ہوجاتا ہے، اسی طرح اگر شئ ماجور پرکسی عین کا اضافہ کردیا گیا، تو اضافی کرایہ اضافی عین کے مقابلے میں ہوجائے گا، اوربقیہ کرایہ اصل کرایہ (Rent)کے بدلہ میں ہوجائے گا ، اس لئے یہ عقد جائز ہوگا، حضرات حنفیہ نے اس معاملہ میں سو دسے بچنے کے لئے انتہائی احتیاط سے کام لیا ہے، اللہ تعالی سودی معاملات سے ہماری حفاظت فرمائے۔ (۱) آمین ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما فی ’’ المغنی والشرح الکبیر ‘‘: ویجوز للمستأجر اجارۃ العین بمثل الأجر وزیادۃ نص علیہ محمد، وروی ذلک عن عطاء والحسن والزہری وبہ قال الشافعی ؒ وابوثور =