محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
ایک مجلس میں تین طلاق مسئلہ(۲۵۸): ایک مجلس میں تین طلاق دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں، اس میں نیت کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا، اور عورت شوہر کے نکاح سے خارج ہوجائے گی،اب بغیر حلالہ کے شوہر کا اس کو اپنے پاس رکھنا ناجائز اور حرام ہے۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما فی ’’ الکتاب‘‘: قال اللہ تعالی:{ الطلاق مرتٰن، فإمساک بمعروف أو تسریح بإحسان، فإن طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ} ۔ (سورۃ البقرۃ : ۲۲۹؍۲۳۰) ما فی ’’الحدیث‘‘: عن أبي ہریرۃ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: ثلٰث جدہن جد وہزلہن جد، النکاح والطلاق والرجعۃ۔ (مشکوۃ المصابیح:۲۸۴،کتاب الطلاق) ما فی ’’الحدیث‘‘: عن محمود بن لبید قال: أخبر رسو ل اللہ صل اللہ علیہ وسلم عن رجل طلق امرأتہ ثلٰث تطلیقات جمیعاً فقام غضبان ، ثم قال : أیلعب بکتاب اللہ عز وجل وأنا بین أظہرکم؟ حتی قام رجل فقال : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ألا أقتلہ؟ رواہ النسائي ۔ (مشکوۃ المصابیح : ص ۲۸۴ ، کتاب الطلاق) ما فی ’’الحدیث‘‘: عن سہل بن سعد في ہذا الخبر قال : ’’ فطلقہا ثلاث تطلیقات عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فأنفذہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ ۔ (سنن أبيداود : ص ۳۰۶ ، کتاب الطلاق) ما فی ’’رد المحتار علی الدر المختار‘‘: (والبدعي ثلٰثۃ متفرقۃ) قولہ : (ثلاثۃ متفرقۃ) وکذا بکلمۃ واحدۃ بالأولی ۔۔۔۔۔۔۔۔ وعن ابن عباس یقع بہ واحدۃ ، وبہ قال ابن اسحق وطاوس وعکرمۃ لما في مسلم أن ابن عباس قال: کان الطلاق علی عہد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وأبي بکر وسنتین من خلافۃ عمر طلاق الثلاث واحدۃ ، فقال عمر : إن النا س قد استعجلوا في أمر کان لہم فیہ أناۃ، فلو أمضیناہ علیہم فأمضاہ علیہم، وذہب جمہور الصحابۃ والتابعین ومن بعدہم من أئمۃ المسلمین إلی أنہ یقع ثلاث ۔ (۴/۴۳۴ ، کتاب الطلاق)