محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
زمین کو متعین مدت واجرت کے ساتھ کرایہ پر لینا مسئلہ(۳۳۴): اگر کوئی شخص زمین کو متعین مدت اور متعین اجرت کیساتھ کرایہ پر لے تو عرفِ عام میں اس کو پٹہ کہا جاتا ہے، اگر اس میں اجارہ کی تمام شرائط کامل طریقہ سے پائی جائیں، تو اس کے جواز میں کوئی شبہ نہیں اور یہ معاملہ مدتِ اجارہ ختم ہونے سے یا زمیندار یاکرایہ دار کی موت واقع ہونے سے ختم ہوجاتا ہے، پھر کرایہ دار کو اپنا قبضہ بر قرار رکھنے کا کوئی حق نہیں ہوگا۔(۲) ------------------------------ (۱) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : في القنیۃ : الرشوۃ یجب ردہا ولا تملک وفیہا دفع للقاضي أو لغیرہ سحتاً لإصلاح المہم فأصلح ثم ندم یرد ما دفع إلیہ ۔ (۸/۳۵ ، کتاب القضاء ، مطلب في الکلام علی الرشوۃ والہدیۃ ، ردالمحتار : ۸/۲۵) الحجۃ علی ما قلنا : (۲) ما في ’’ مجموعۃ رسائل ابن عابدین ‘‘ : ویجوز أن یستأجر الساحۃ لیبنی فیہا أو لیغرس فیہا نخلاً أو شجراً لأنہا منفعۃ تقصد بالأراضي ثم إذا انقضت مدۃ الإجارۃ لزمہ أن یقلع البناء والغرس ویسلمہا فارغۃ لأنہما لا نہایۃ لہما ففي إبقائہما ضرر بصاحب الأرض ۔ (۲/۱۴۸ ، مکتبہ عثمانیہ کراتشی) ما في ’’ المغني لإبن قدامۃ ‘‘ : ولا خلاف بین أہل العلم في إباحۃ إجارۃ العقار ، قال ابن المنذر: أجمع کل من نحفظ عنہ من أہل العلم علی أن استئجار المنازل والدواب جائز، ولا تجوز إجارتہا إلا في مدۃ معینۃ معلومۃ ولا بد من مشاہدتہ وتحدیدہ فإنہ لا یصیر معلوماً إلا بذلک ، ولا تجوز إطلاقہ ولا وصفہ وبہذا قال الشافعي ۔ (۵/۲۷۱ ، کتاب الإجارۃ)=