محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
بلکہ وعدۂ بیع کیا جائے، جس کو عقدِ اجارہ میں بطور شرط کے مقرر کرلیا جائے ، احناف او ر شوافع کے نزدیک گر چہ یہ جائز نہیں(۱)،لیکن مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک جائز ہے، (۲) لہذا ضرورتِ شدید ہ، تعاملِ ناس اور عمومِ بلویٰ جیسے اصولوں کی بناء پر مذہبِ غیر پر عمل کرکے تیسیراً للناس اس کو اختیار کیا جائے ،(۳) یاپھر وعدۂ بیع اور اجارہ کو آپس میں مشروط نہ کیا جائے، بلکہ دو عقد الگ الگ کئے جائیں، ایک عقد میں صرف وعد ۂ ------------------------------ (۱) ما فی ’’ السنن الترمذی ‘‘: لقد ثبت عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم النہي عن بیعتین وعن شرطین في بیع، روي عن أبي ہریرۃ رضي اللہ عنہ قال: نہی النبي صلی اللہ علیہ وسلم عن بیعتین في بیعۃ ۔ (۲/۲۷۰) ما فی ’’ الفقہ الإسلامی وأدلتہ ‘‘: قال الحنفیۃ : البیع فاسدٌ لأن الثمن مجہول لما فیہ من تعلیق وإبہام دون أن یستقر الثمن علی شيء ۔ (۵/۳۴۵۸؍۳۴۶۰) (۲) ما فی ’’ الفقہ الإسلامی وأدلتہ ‘‘ : وقال مالک : یصح ہذا البیع ویکون من باب الخیار ۔ (۵/۳۴۶۰ ، کتاب الإجارۃ) (۳) ما فی ’’ رد المحتار علی الدر المختار ‘‘: فالأولی الجمع بین المذہبین لأنہ کالتلمیذ لأبي حنیفۃ، ولذا مال أصحابنا إلی بعض أقوالہ ضرورۃً کما في دیباجۃ المصفی۔ قہستاني۔ وفي حاشیۃ الفتال: وذکر الفقیہ أبو اللیث في تأسیس النظائر أنہ إذا لم یوجد في مذہب الإمام قول في مسئلۃ یرجع إلی مذہب مالک لأنہ أقرب المذاہب إلیہ ۔ اھـ۔ (۵/۴۲ ،کتاب الطلاق ، باب الرجعۃ ، مطلب : مال أصحابنا إلی بعض أقوال مالک رحمہ اللہ ضرورۃً) ما فی ’’ قواعد الفقہ ‘‘ : ’’ المشقۃ تجلب التیسیر ‘‘ ۔(ص: ۱۲۲) وأیضاً: ’’ الأمر إذا ضاق اتسع وإذا اتسع ضاق ‘‘ ۔ (ص : ۶۲) (اسلام کا قانون اجارہ:۳۳۲)