محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
۱-…جس وقت معاملہ ہو ،اس وقت عقدِ اجارہ کو منعقد نہ مانا جائے ،بلکہ عقدِ اجارہ کا صرف وعدہ کیا جائے ، اور گاہک کے پاس سامان آنے کے بعد بینک یا لیزنگ کمپنی (Leasing Company)گاہک سے عقدِ اجارہ باقاعدہ تحریری یا زبانی طور پر کرلیں، اب اگر سامان گاہک کی تعدی کے بغیر ہلاک ہوجائے ، تو نقصان لیزنگ کمپنی یا بینک کا شمار ہوگا ، کیونکہ عقدِ اجارہ کی وجہ سے سامان گاہک کے پاس امانت ہے، اور امانت پر بغیر تعدی کے ضمان نہیں آتا، (۱)اس صورت میں پہلی جو دوخرابیاں لازم آرہی تھیں وہ ختم ہوجائیں گی(یعنی قبضہ سے پہلے اجارہ، اور مالک کے رسک میں اس شی ٔ کا نہ آنا) ۔ ۲-…تیسری اور چوتھی خرابی کا حاصل یہ ہے کہ عقدِ اجارہ کے وقت بیع نہ کی جائے، ------------------------------ (۱) ما فی ’’ الہدایہ ‘‘: لأن العین المستأجرۃ أمانۃ في ید المستأجر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والمتاع أمانۃ فی یدہ، فإن ہلک لم یضمن شیئاً عند أبي حنیفۃ ۔ (۳/۳۰۸ ، کتاب الإجارات) ما فی ’’ الفقہ الإسلامی وأدلتہ ‘‘: ضمان العین المستأجرۃ: تعتبر ید المستأجر علی العین المستأجرۃ في إجارۃ المنافع ید أمانۃ فلا یضمن ما یتلف بیدہ إلا بالتعدي أو التقصیر في الحفظ، ویتقید في الانتفاع بمقتضی العقد وما شرط فیہ وما جری بہ العرف ۔ (۵/۳۸۴۷ ، کتاب الإجارۃ) ما فی ’’ الفقہ الحنفی فی ثوبہ الجدید ‘‘: العین المستأجرۃ أمانۃ في ید المستأجر إن تلفت بغیر تفریط لم یضمنہا، لا نعلم في ہذا خلافاً لأنہ قبض العین لاستیفاء یستحقہا منہا، وإذا انقضت المدۃ فعلیہ رفع یدہ ۔ (۴/۳۶۱ ، کتاب الإجارۃ ، العین المستأجرۃ أمانۃ في ید المستأجر)