محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
۲-…یہ اشیاء کا، اپنے ضمان(Risk)میں آنے سے پہلے عقدِ اجارہ ہے، اور یہ بھی ناجائز ہے ۔ (۱) ۳-…عقدِ اجارہ میں مدتِ اجارہ کے ختم پر اس چیز کو بیچنے کی شرط لگانا بھی ناجائز ہے ۔ ۴-… صفقۃ في صفقۃ یعنی دو معاملات کو بیک وقت کرنا لازم آتا ہے ،اور یہ بھی جائز نہیں، اس لیے اگر مذکورہ طریقے پر بھی اجارہ کیا جائے تو یہ عقدِ اجارہ جائز نہ ہوگا ۔ (۲) البتہ اس معاملہ کو شریعت کے مطابق کرنے کیلئے چند امور کا لحاظ کرنا ہوگا ۔ ------------------------------ (۱) ما فی ’’ السنن الترمذی ‘‘ :عن عمرو بن شعیب قال: حدثني أبي عن أبیہ حتی ذکر عبد اللہ بن عمرو أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : ’’لا یحل سلف وبیع، ولا شرطان في بیع، ولا ربح ما لم یُضمَن، ولا بیع ما لیس عندک ‘‘ ۔ (۲/۲۷۲ ، رقم الحدیث : ۱۲۳۴) ما فی ’’ درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام ‘‘ : وقول المجلۃ ’’لہ أن یبیع‘‘ یقصد بہ الاحتراز من الإیجار فإنہ إذا کان المبیع عقاراً فقد اختلف في إیجارہ قبل القبض، فقال بعض الفقہاء بعدم الجواز بالاتفاق وہذا ہو الصحیح المفتی بہ۔ (۱/۲۳۶، المادۃ: ۲۵۳) ما فی ’’ الفقہ الحنفی فی ثوبہ الجدید ‘‘: لو باع العقار بربح یلزم ربح ما لم یضمن، وصار بیع العقار کإجارتہ، وإجارتہ قبل قبضہ لا تجوز فکذا بیعہ ۔ (۴/۱۹۸ ، أحکام التصرف في المبیع والثمن قبل القبض) (۲) ما فی ’’ جمع الجوامع ‘‘: لقد ثبت عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم النہي عن بیعتین وعن شرطین في بیعۃٍ، روي عن أبي ہریرۃ رضي اللہ عنہ قال : ’’ نہی النبي صلی اللہ علیہ وسلم عن بیعتین في بیعۃٍ ‘‘ ۔ (۸/۳۴، سنن الترمذي:۲/۲۷۰، رقم الحدیث:۱۲۳۱، الفقہ الإسلامي وأدلتہ:۵/۳۴۵۸)