محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
۲-…دوسری صورت یہ ہے کہ لیزنگ کمپنی (Leasing Company) اور بینک (Bank) ایسی اشیاء اور سامان کوکرایہ پر دے، جو کہ عقد کے وقت اس کی ملکیت میں نہ ہوں ، یعنی عقد تو بینک یا لیزنگ کمپنی پہلے کرے، اور سامان کی خریداری او ر اس کو کرایہ پر دینے کیلئے اپنی ملکیت میں لانے کا عمل عقدِ اجارہ کے بعد ہو، ایسی صورت میں عقدِ اجارہ کرنے کے بعد بینک وہ سامان اپنے گاہک (Customer) کے نام ہی پر خریدے، اور پھر بینک اپنے گاہک کو اس سامان پر قبضہ کرنے کا وکیل بنادے ، ایسے موقع پربینک ایک تاریخ مقرر کردیتا ہے ،کہ فلاں تاریخ تک عقدِ بیع مکمل ہوجائے گا ، اور اس کے بعد فلاں تاریخ سے عقدِ اجارہ شروع ہوجائے گا، لہذا اجارہ کی معینہ تاریخ کے بعد بینک اس سامان کا کرایہ وصول کرنا شروع کردیتا ہے، یہاں تک کہ عقدِ اجارہ کی مدت معاہدہ کے مطابق پوری ہوجائے ،اور بینک اپنے تمام واجبات گاہک (Customer)سے وصول کرلے ، تو پھر بینک وہ سامان معمولی قیمت پر اسی گاہک کے ہاتھ فروخت کردے گا، اس دوسری صورت میں فقہی اعتبار سے چند امورقابلِ غورہیں۔ ۱-…جس وقت بینک عقدِ اجارہ کرتا ہے، اس وقت بینک اس چیز کا مالک بھی نہیں ، اور نہ ہی اس چیز پر بینک کا قبضہ ہوتا ہے ، اور جو چیز ملکیت میں نہ ہو اس کو اجارہ پر دینا بھی جائز نہیں ، اس لئے کہ یہ عقد ربح ما لم یضمن( ایسی چیز سے نفع حاصل کیا جائے جس کا رسک وہ قبول نہ کرے) کے قبیل سے ہے جو کہ حدیث شریف کی رو سے ناجائز ہے ، لہذا شرعی اعتبار سے اس میں چند خرابیاں پائی جاتی ہیںجن کی تفصیل یہ ہے ۔ ۱-…یہ عقدِ اجارہ قبل القبض ہونے کی بنا ء پر ناجائز ہے ۔