محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
اس کے جواز و عدمِ جواز کی دو صورتیں ہیں: ۱-…پہلی صورت تو یہ ہے کہ بینک یا لیزنگ کمپنی اشیاء اور سامان خود خریدکر بحیثیتِ مالک اس پر خود قبضہ بھی کرلے، اور پھراجرت و مدتِ معلومہ کے ساتھ اپنے گاہک کو کرایہ پر دیدے،چونکہ ان اشیاء کو بینک دوسرے شخص کو کرایہ پر دیتا ہے ، اس لئے مدتِ اجارہ پوری ہوجانے کے بعد یہ اشیاء دوبارہ بینک کے قبضہ میں آجائیں گی ،اس کے بعد فریقین کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ دو بارہ عقدِ اجارہ از سرِ نو کرلیں، یا فریقین آپس میں اس وقت کوئی ثمن طے کرکے عقدِ بیع کرلیں ، بینک کو یہ بھی اختیار حاصل ہوگاکہ وہ ان اشیاء اور سامان کا کسی اور گاہک کے ساتھ کرایہ داری کا معاملہ کرلے، یا کسی دوسرے گاہک کے ہاتھ اس کو فروخت کردے ، یہ طریقہ بالکل بے غبار اور شرعی اعتبار سے متفقہ طور پر جائز ہے ۔ (۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما فی ’’ الفقہ الحنفي في ثوبہ الجدید ‘‘: یشترط في الإجارۃ أن تکون الأجرۃ والمنفعۃ معلومتین لأن جہالتہما تفضی إلی المنازعۃ کجہالۃ الثمن والمثمن في البیع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیصح العقد علی مدۃ معلومۃ أيّ مدۃ کانت،لأن المدۃ إن کانت معلومۃ کان قدر المنفعۃ فیہا معلوماً إذا کانت المنفعۃ لا تتفاوت ۔ (۴/۳۴۲، کتاب الإجارۃ) ما فی ’’ الفقہ الإسلامی وأدلتہ ‘‘: وأما بیان المدۃ فہو مطلوب في إجارۃ الدور والمنازل والبیوت والحوانیت وفي استئجار الظئر (المرضع) لأن المعقود علیہ لا یصیر معلوم القدر بدونہ فترک بیانہ یفضي إلی المنازعۃ ۔ (۵/۳۸۰۹)