محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
بیع الوفاء کے نام سے بیع کی ایک صورت بیان فرمائی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ صاحبِ ضرورت ،مکان،دوکان یا زمین، اس طرح فروخت کرے کہ فروخت شدہ جائداد مشتری کے پاس من کل الوجوہ امانت تو نہیں مگر مثلِ امانت کے ہوگی، کہ مشتری اس سے فائدہ اٹھاسکتا ہے مگر اس کو فروخت نہیں کرسکتا، اور فائدہ اٹھانے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہیگا جب تک کہ بائع، لی ہوئی پوری رقم واپس نہ کردے ، اور جب بائع رقم واپس کردیگا تو مشتری پر لازم ہوگا کہ اتنی ہی رقم لے کر جائداد واپس کردے ،جتنے میں اس نے بائع کو دیا تھا، اس عقد کو بیع الوفاء ،بیع الأمانت اور بیع الرہن وغیرہ کہا جاتا ہے ، صاحبِ ہدایہ نے اس کو بیع الجائز فرمایا ہے۔ اس کا رواج پانچویں صدی ہجری میں ہوا، اس کے جواز وعدم ِ جواز میں شدید اختلاف رہا ، امام ظہیر الدین اورصدرالشہید وغیرہ اس کے عدم ِ جواز کے قائل ہیں ، اما م ِ ابوشجاع ، امام علی ، امام ابن نجیم ، امام بیہقی ،سغدی ، قاضی حسن ماتریدی اور امام مرغینانی وغیرہ اس کوحاجتِ ناس کے پیش نظراستحساناً ، اور عرفِ عام حادث کا قضیہ کہہ کر جائز قرار دیتے ہیں۔ حضرت تھانوی ؒ نے اصولاً عدم ِ جواز کو ثابت کیا ہے ، اور بوقت ِ ضرورت جواز پر عمل کی اجازت دی ہے ، اور محدثِ سہارنپور علا مہ خلیل احمدؒ نے جائز قرار دیتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ دستاویز لکھتے وقت بیع کو مطلق عن الشرط رکھا جائے، اور بیع مع الشرط کی قید نہ لگائی جائے،تاکہ فقہائے متأخرین کے دونوں فریق کے قول پر عمل ثابت ہوجائے، عصرِ حاضر کے علماء وفقہاء میں علامہ قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمیؒ اور