محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
چنانچہ مذکورہ حکمت ومصلحت کے پیش نظر ہی اللہ تعالیٰ نے تجارت کرنے کا حکم فرمایا ، خرید وفروخت کو مباح قراردیا ، تاکہ منافع کا تبادلہ ہوتا رہے اور دنیوی زندگی کے اسباب کے سلسلہ میں آپس میں تعاون جاری رہے ۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : بیع کا حاصل یہی ہے کہ اپنی مملوکہ چیز کو قیمت کے عوض میں دوسروں کی طرف منتقل کیا جائے ، چو نکہ یہ دوسروں کی ہاتھ کی چیزوں کامحتاج ہے او ر وہ بلا عوض دیتا نہیں لہذا اس کو حاصل کرنے کا ذریعہ یہی ہے کہ بیع وشراء کا راستہ اختیارکیا جائے ۔ بیع کی مشروعیت زندگی کے اہم حاجات میں سے ہے ، بیع آبادی کے فروغ اور کثرت کا ایک اہم ترین ذریعہ ہے، بلکہ بیع زندگی کے لیے چکی کے اس پاٹ کی مانند ہے جس کے بغیر چکی ادھوری ہوتی ہے۔ چونکہ انسان مدنی الطبع واقع ہوا ہے ، یعنی تمام افراد مجموعی طور پر(روٹی کپڑا اور مکان میں) ایک دوسرے کے منافع کے محتاج ہیں ، بہت ساری ضروریات وحاجات ایسی ہیں جو اپنی تکمیل میں بہت سے ان اجزاء کی محتاج ہوتی ہیں جو اجزاء علیحدہ جگہوں اور علیحدہ شخصوں سے صادر ہوتے ہیں ، ہر چیز کے کچھ ماہر ہوتے ہیں ، مثلاً کسان کو لے لیجئے کہ اگر وہ کھیتی کرناچاہے تو اس کے لیے ہل اور دیگر آـلاتِ حرفت کی ضرورت ہے اور آلاتِ حرفت وصنعت ایک جگہ یا ایک شخص کے پاس تیار نہیں ہوتے بلکہ اگر آلہ لوہے کا ہے تو لوہار کی ضرورت اور لکڑی کا ہے تو بڑھئی کی ضرورت ہے۔ اسی طرح لوہار اور بڑھئی اس پیشہ کو اس لیے اپناتے ہیں تاکہ اہل وعیال کے نفقہ کا انتظام ہو ،اور انہیں اپنی زندگی بچانے کے لیے ، ماکولات کی ضرورت ہے تووہ محتاج ہونگے کسان کے، جو یہ اشیاء ان کومہیا کرتا ہے۔