محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
اے نوجوانوکی جماعت! تم میں جو نکاح کی استطاعت رکھے اسے چاہیے کہ وہ نکاح کرلے ، کیوں کہ اس سے نگاہیں نیچی رہتی ہیں ، اور شرمگاہ کی حفاظت ہوتی ہے۔ (أخرجہ الشیخان فی صحیحیہما واللفظ لمسلم) ا سلامی تعلیمات کا اصل رخ یہ ہے کہ نکاح کا معاملہ اور معاہدہ عمربھر کے لیے ہو ، اس کو توڑنے اور ختم کرنے کی نوبت ہی نہ آئے ، کیوں کہ اس معاملہ کے ٹوٹنے کا اثر صرف میاں بیوی پر ہی نہیں پڑتا ، بلکہ نسل واولاد کی تباہی وبربادی اور بعض اوقات خاندانوں اور قبیلوں میں فساد تک کی نوبت پہونچتی ہے ، اور پورا معاشرہ بری طرح متأثر ہوتا ہے ۔اسی لیے شریعتِ اسلامیہ نے میاں بیوی کو وہ ہدایتیں دی ، جس پر عمل پیرا ہونے سے یہ رشتہ زیادہ سے زیادہ مضبوط ومستحکم ہوتا چلا جاتا ہے ۔ اگر بیوی کی طرف سے کوئی ایسی صورت پیش آئے جو شوہر کے مزاج سے ہم آہنگ نہ ہو، تو شوہر کو حکم دیا گیا کہ وہ افہام وتفہیم اور زجرو تنبیہ سے کام لے، اگر بات بڑھ جائے او راس سے بھی کام نہ چلے تو خاندان ہی کے چند افراد کو حکم اور ثالث بناکر معاملہ طے کرلیا جائے ۔ارشادِ خداوندی ہے:{وإن خفتم شقاق بینہما فابعثوا حکماً من أہلہ وحکماً من أہلہا، إن یرید ا إصلاحاً یوفق اللہ بینہما} ۔ … اور اگر تمہیں دونوں کے درمیان کشمکش کا علم ہو تو تم ایک حکم مرد کے خاندان سے اور ایک حکم عورت کے خاندان سے مقررکردو، اگر دونوں کی نیت اصلاحِ حال کی ہوگی تو اللہ دونوں کے درمیان موافقت پیدا کردے گا ۔ (سورۃ النساء:۳۵) لیکن بعض اوقات میاں بیوی کے مزاج کا ہم آہنگ نہ ہونا اور دونوں میں اس قدر بغض وعداوت ہوجانا کہ دونوں ایک ساتھ رہکر ایک دوسرے کے حقوقِ واجبہ ادانہ