محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
کرسکتے ہوں، اور اصلاحِ حال کی تما م کوششیں ناکام ہوچکی ہوں ، اور تعلقِ نکاح کے مطلوبہ ثمرات حاصل ہونے کے بجائے میاں بیوی کاآپس میں مل کر رہنا ایک عذاب بن جاتا ہو ،تو ایسی صورت میں اس ازدواجی تعلق کو ختم کرناہی طرفین کے لیے سامانِ راحت وسلامتی ہوتا ہے ، اس لیے شریعت نے طلاق کو مباح قرار دیا۔ علامہ شامی ؒ فرماتے ہیں: …محاسنِ طلاق میں یہ داخل ہے کہ شریعت نے طلاق کا اختیار صرف مرد کو دے رکھا ہے ، کیوں کہ وہ عورت کے مقابـلہ میں کامل العقل ہوتا ہے ، اور کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے وہ اس کے عواقب ونتائج پر غور کرلیتا ہے ، جبکہ عورت کی صفت عقل ودین میں نقصان ہونا ہے ، اوروہ خواہشات سے مغلوب ہوتی ہے ۔اور یہ بھی محاسنِ طلاق میں داخل ہے کہ آدمی کو دینی ودنیوی مکارہ سے چھٹکارا مل جاتا ہے ۔ (ردالمحتار:۲/۴۲۹) لیکن اس خلاصی وچھٹکارے کے لیے اسی طریق وترتیب کو اپنانا ضروری ہے جو شریعت نے بتلائی ہے ، اس کی خلاف ورزی کرنا شرعاً حرام ہے ۔ مفتیٔ اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ فرماتے ہیں: ’’شریعت نے معاہدۂ نکاح کو توڑنے اور فسخ کرنے کا طریقہ وہ نہیں رکھا ، جوعام خرید وفروخت کے معاملات اور معاہدات کا ہے ، کہ ایک مرتبہ معاہدہ فسخ کردیا تو اسی وقت اسی منٹ فریقین آزاد ہوگئے ، اور پہلا معاملہ بالکل ختم ہوگیا ، اور ہر ایک کو اختیار ہوگیا کہ دوسرے سے معاہدہ کرلے ، بلکہ معاملۂ نکاح کو بالکل قطع کرنے کے لیے او ل تو اس کے تین درجے تین طلاقوں کی صورت میں رکھے گئے ، پھر اس پر عدت کی پابندی لگادی گئی‘‘۔(معارف القرآن:۱/۵۵۷)