محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
بالکل ناجائز اوربد گمانی ہے(۱)، ایسے عملیات سے اجتناب کرنا چاہیے، کیوں کہ اس سے عقائد فاسد ہوتے ہیں، اورتہمت وبہتان کا بھی دروازہ کھلتا ہے، لہذا اس کے ذریعہ کسی کو چور قرار دیکر زبردستی اس سے مالِ مسروقہ وصول کرنا ، اس کو گرفتار کرنا، سزا دینا،اورذلیل ورسوا کرنا جائز نہیں ۔ (۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما فی ’’ الکتاب ‘‘: لقولہ تعالی:{ یا أیہا الذین آمنوا اجتنبوا کثیراً من الظن إن بعض الظن إثم} ۔ ( سورۃ الحجرات: ۱۲) ما فی ’’ التفسیر الکبیر للرازی ‘‘: قال الرازي تحت قولہ تعالی: { یا أیہا الذین آمنوا اجتنبوا کثیراً من الظن} قولہ: {اجتنبوا کثیراً من الظن} فہم منہ أن المعتبر الیقین فیقول القائل: أنا أکشف فلاناً یعني أعملہ یقیناً وأطلع علی عیبہ مشاہدۃ فأعیب فأکون قد اجتنبت الظن ، فقال تعالی: ولا تتبعوا الظن ، ولا تجتہدوا في طلب الیقین في معایب الناس ۔ (۱۰/۱۱۰) ما فی ’’ شرح کتاب الفقہ الأکبر ‘‘: لا یأخذ الفال من المصحف۔(ص: ۱۸۳) (۲) ما فی ’’ بستان العارفین ‘‘: قال الفقیہ رحمہ اللہ تعالی: لا ینبغي للرجل أن یعرض نفسہ للتہمۃ ولا یجالس أہل التہمۃ ، ولا یخالطہم ، فإنہ یصیر منہما۔۔۔۔۔۔۔ وروي عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنہ قال:’’ من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلا یقفن مواقف التہم‘‘۔ (۵۳، الباب الرابع وستون في النہي عن التہمۃ) (بحوالہ فتاوی محمودیہ:۲۰/۷۶) ما فی ’’ مشکوٰۃ المصابیح ‘‘: عن أبي ہریرۃ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :’’ المسلم أخو المسلم لا یظلمہ ولا یخذلہ ولا یحقرہ، التقویٰ ہہنا، ویشیر إلی صدرہ ثلاث مرات، بحسب امرئٍ من الشر أن یحقر أخاہ المسلم ، کل المسلم علی المسلم حرامٌ ، دمہ ومالہ وعرضہ ‘‘ ۔ (ص : ۴۲۲ ، کتاب الأدب ، باب الشفقۃ والرحمۃ علی الخلق ، الفصل الأول) (خیر الفتاوی: ۱/۸۷)