محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
مقرر کرے گا، اور یہ جو باہمی مقدمات کے حل کے لیے مسلمانوں نے قاضی مقرر کیا ہے ، اس پر شرعی قاضی کا حکم نافذ نہ ہوگا، یعنی غیر مسلم حکومت کے قوانین کے خلاف شرعی حد اور قصاص وغیرہ جاری نہیں کرسکتا، لیکن نجی قوانین جیسے نکاح، طلاق ، فسخِ نکاح، حلال، حرام ، قیامِ جمعہ وعیدین اور دیگر روز مرہ معاملات کے احکام جاری کرسکتا ہے ، تاکہ مسلمان خلفشار وانتشار سے بچ سکیں ۔(۱) ------------------------------ =ما فی ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘: ویجوز تقلد القضاء من السلطان العادل والجائر، ولکن إنما یجوز تقلد القضاء من السلطان إذا کان یمکنہ من القضاء بحق ولا یخوض في قضایاہ بشر ولا ینہاہ عن تنفیذ بعض الأحکام کما ینبغي، أما إذا کان لا یمکنہ من القضاء بحق وبخوض في قضایاہ بشر ولا یمکنہ من تنفیذ بعض الأحکام کما ینبغي لا یتقلد منہ، وفي السغناقي: ولا یجوز طاعتہ في الجور ۔ (۳/۳۰۷ ، کتاب أدب القاضي، الباب الأول في تفسیر معنی الأدب والقضاء) (۱) ما فی ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘: وإذا اجتمع أہل بلدۃ علی رجل وجعلوہ قاضیاً یقضي فیما بینہم لا یصیر قاضیاً ۔ (۳/۳۱۵ ، کتاب أدب القاضی ، الباب الخامس في التقلید والعزل) ما فی ’’ رد المحتار علی الدر المختار ‘‘: وأما بلاد علیہا ولاۃ کفار فیجوز للمسلمین إقامۃ الجمع والأعیاد ، ویصیر القاضي قاضیاً بتراضي المسلمین ، فیجب علیہم أن یلتمسوا والیاً مسلماً عنہم اھـ ۔ (۸/۴۳ ، کتاب القضاء ، مطلب : أبوحنیفۃ دعي إلی القضاء ثلاث مرات فأبی)