محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
ایسے ملک میں آباد ہوں، جہاں غیر مسلموں کا غلبہ ہو وہاں مسلمان، بادشاہِ وقت(جو کہ غیر مسلم ہے) سے مطالبہ کریں کہ مسلمانوں کے معاملات کے نفاذ کے لیے مسلم قاضی مقرر کرے،اور اس غیر مسلم بادشاہ کا مقرر کردہ مسلمان قاضی ،شرعی قاضی ہوگا، بشرطیکہ قاضی کو تنفیذِ احکام کا اختیار بھی دیا گیا ہو، اور احکامِ شرعیہ کے موافق فیصلہ کرنے سے نہ روکا جائے ، ورنہ مسلمانوں کو چاہیے کہ غیر مسلم حکومت میں رہتے ہوئے خود سے اپنا ایک امیر مقرر کریں ، پھر وہ امیر مسلمانوں کے باہمی مقدمات کے فیصلہ کے لیے کسی کوقاضی مقرر کرے(۱)،یہ بات ذہن نشین رہے کہ شرعی قاضی وہی ہوگا جس کو بادشاہِ وقت ------------------------------ =ما فی ’’ رد المحتار علی الدر المختار ‘‘: (ویشترط کونہ مسلماً) أي لأن الکافر لایلي علی المسلم ۔ (۲/۲۸۰ ، کتاب الصلوۃ، مطلب شروط الإمامۃ الکبری ، وکذا في الفتاوی الہندیۃ : ۳/۳۰۷ ، کتاب أدب القاضي، الباب الأول في تفسیر معنی الأدب والقضاء) (۱) ما فی ’’ رد المحتار علی الدر المختار ‘‘:(ویجوز تقلد القضاء من السلطان العادل والجائر ولو کافراً إلا إذا کان یمنعہ عن القضاء بالحق فیحرم) ۔ ’’ درمختار ‘‘ ۔ قولہ : ولو کافراً، في التاتارخانیۃ : الإسلام لیس بشرط فیہ أي في السلطان الذي یقلد ۔ (۸/۴۳ ، کتاب القضاء ، مطلب أبوحنیفۃ دعي إلی القضاء ثلاث مرات فأبی) وما في’’ رد المحتار علی الدر المختار ‘‘: وفي الفتح : وإذا لم یکن سلطان ولا من یجوز التقلد منہ کما ہو في بعض بلاد المسلمین غلب علیہم الکفارکقرطبۃ الآن، یجب علی المسلمین أن یتفقوا علی واحد منہم یجعلونہ والیاً فیولی قاضیاً ، ویکون ہو الذي یقضي بینہم ، وکذا ینصبوا إماماً یصلي بہم الجمعۃ، وہذا ہو الذي تطمئن النفس إلیہ فلیعتمد۔ نہر۔ والإشارۃ بقولہ : وہذا إلی ما أفادہ کلام الفتح من عدم صحۃ تقلد القضاء من کافر علی خلاف ما مر عن التاتارخانیۃ، ولکن إذا ولی الکافر علیہم قاضیاً ورضیہ المسلمون صحت تولیتہ بلاشبہۃ ۔ تأمل ۔ (۸/۴۳،۴۴، کتاب القضاء ، مطلب في حکم تولیۃ القضاء في بلاد تغلب علیہا الکفار)=