محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
جعالہ کی یہ صورتِ مذکورہ ائمہثلاثہ( امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ)کے نزدیک جائز ہے(۱) ، فقہائے احناف نے جعالہ کو بوجہ عمو مِ بلویٰ وضرورت استحساناً جائز کہا ہے ، ورنہ قیاساً جعالہ جائز نہیں ہے ۔ (۲) ------------------------------ =الانتفاع بہا شرعاً، فلا تجوز الجعالۃ علی إخراج الجن من شخص، ولا علی حل سحر مثلاً، لأنہ یتعذر معرفۃ کون الجن خرج أم لا، أو انحل السحر أم لا، کما لا تجوز الجعالۃ علی ما یحرم نفعہ کالغناء والزمر والنواح وسائر المحرمات، والقاعدۃ في ذلک: أن کل ما جاز أخذ العوض علیہ في الإجارۃ، جاز أخذ العوض علیہ في الجعالۃ، وما لا یجوز أخذ العوض علیہ في الإجارۃ، لا یجوز أخذ الجعل علیہ۔ لقولہ تعالی: {ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان} ۔ (۵/۳۸۶۹) (۱) ما فی ’’ الفقہ الإسلامی وأدلتہ ‘‘:وتجوز الجعالۃ شرعاً عند المالکیۃ والشافعیۃ والحنابلۃ ، بدلیل قولہ تعالی في قصۃ یوسف مع إخوتہ : { قالوا نفقد صواع الملک ، ولمن جاء بہ حمل بعیر، وأنا بہ زعیم} [یوسف:۷۲] ۔ أي کفیل۔ وبدلیل ما جاء في السنۃ من أخذ الأجرۃ علی الرقیۃ بالفاتحۃ (أم القرآن)، وہو ما رواہ الجماعۃ إلا النسائي عن أبي سعید الخدري: ’’ أن ناساً من أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أتوا حیاً من أحیاء العرب، فلم یُقروہم (یضیفوہم)، فبینماہم کذلک إذ لدغ سید أولئک، فقالوا: ہل فیکم راقٍ؟ فقالوا: لم تقرونا، فلا نفعل أو تجعلوا لنا جعلاً، فجعلوا لہم قطیع شائٍ، فجعل رجل یقرأ بأم القرآن، ویجمع بزاقہ، ویتفل، فبرأ الرجل، فأتوہم بالشاء، فقالوا: لا نأخذہا حتی نسأل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فسألوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن ذلک فضحک، وقال: وما أدراک إنہا رقیۃ خذوہا واضربوا لي فیہا بسہم‘‘۔ (۵/۳۸۶۶، کذا في بذل المجہود :۱۱/۶۲۶، رقم الحدیث: ۳۸۹۹، وکذا في الترمذی: ۲/۲۶ ، أبواب الطب عن رسول اللہ) (۲) ما فی ’’ الفقہ الإسلامی وأدلتہ ‘‘: لا تجوز الجعالۃ عند الحنفیۃ لما فیہا من الغرر أي=