محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
اس کے جواز کیلئے چار شرطیں ہیں : ۱-… جعالہ کے درست ہونے کے لئے صیغۂ جعالہ ضروری ہے، جیسے کوئی شخص یہ کہے: ’’ من رد علي ضالّتي فلہ کذا‘‘ جو شخص میراگمشدہ سامان لادے گا اس کواتنا ملے گا ۔ (۱) ۲-…صحتِ جعالہ کیلئے متعاقدین کاعاقل بالغ سمجھدار اور تصرف کا اہل ہونا ضروری ہے ، لہذا نابالغ،مجنون اور سفیہ محجور کے اعلان کرنے سے جعالہ درست نہیں ہوگا ۔ (۲) ۳-… جعالہ میں عمل خواہ معلوم ہو یا مجہول، دونوں صورتوں میں جعالہ درست ہوتا ہے ۔ (۳) ۴-…جعالہ جس کو انعام سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے ،اس کا متعین اور مباح ہونا ضروری ہے، لہذا اگر جعالہ مباح نہ ہو بلکہ حرام ہو تو اس کا وصول کرنا جائز نہیں (۴)، ------------------------------ =(۱) ما فی ’’ الفقہ الإسلامی وأدلتہ ‘‘ : الجعالۃ التزام بإرادۃ واحدۃ فلا تتحقق إلا بصیغۃ من الجاعل من الصیغ السابقۃ في تعریفہا ونحوہا ، تدل علی إذن بالعمل بطلب صریح ، بعوض معلوم مقصود عادۃ ملتزم بہ ۔ (۵/۳۸۶۶؍۳۸۶۷) (۲) ما فی ’’ الفقہ الإسلامی وأدلتہ ‘‘ : أولاً : أہلیۃ التعاقد : یشترط عند الشافعیۃ والحنابلۃ في الجاعل مالکاً کان أو غیرہ أن یکون مطلق التصرف (بالغاً عاقلاً رشیداً) ، فلا یصح من صبيٍ ومجنون ومحجور سفہ ۔ (۵/۳۸۶۸) (۳) ما فی ’’ الفقہ الإسلامی وأدلتہ ‘‘: ثانیاً : أن الجعالۃ عقد یحتمل الغرر، وتجوز جہالۃ العمل والمدۃ بخلاف الإجارۃ، فالعمل في الجعالۃ قد یکون معلوماً أو مجہولاً غیر معلوم کرد بہیمۃٍ ضالۃٍ وحفر بئر حتی یخرج منہا الماء وکما تصح الجعالۃ علی عمل مجہول أو معلوم تصح جہالۃ المدۃ ۔ (۵/۳۸۶۷؍۳۸۶۸) (۴) ما فی ’’ الفقہ الإسلامی وأدلتہ ‘‘: ثالثاً : أن تکون المنفعۃ معلومۃ حقیقۃ، مباحاً =