محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
(د) …اسی طرح اس سلسلے میں یہ اصول بھی یاد رکھنا چاہیے کہ فقہاء احناف کے یہاں کسی شیٔ کی فروخت (Sale)اسی وقت جائز ہوتی ہے، جب کہ وہ چیز بیچنے والے کے قبضہ میں آگئی ہو، اگر فروخت کی جانے والی شی ٔ فروخت کرنے والے کے قبضہ میں نہ آئی ہو تو پھر اس کو قبضہ سے پہلے فروخت کرنا جائز نہیں۔اس کے جواز کی صورت یہ ہے ،کہ وہ کمپنی سے پہلے خودیا کسی کو اپنا وکیل بناکر مال پر قبضہ کرلے ، اور پھر گاہک کو مال فراہم کرے ۔ (۱) ------------------------------ (۱) ما فی ’’ الہدایۃ ‘‘: ومن اشتری شیئاً مما ینقل ویحول لم یجز بیعہ حتی یقبضہ لأنہ نہی عن بیع ما لم یقبض ولأن فیہ غرر انفساخ العقد علی اعتبار الہلاک ۔ (۳/۷۴ ، کتاب البیوع ، باب التولیۃ والمرابحۃ) ما فی ’’ الصحیح المسلم ‘‘: عن ابن عباس قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:’’ من ابتاع طعاماً فلا یبعہ حتی یقبضہ‘‘۔ قال ابن عباس: وأحسب کل شيء بمنزلۃ الطعام ۔ (۲/۵ ، کتاب البیوع ، باب بطلان بیع المبیع قبل القبض ، سنن أبي داود : ۲/۱۳۷ ، باب في بیع الطعام قبل أن یستوفی) ما فی ’’ درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام ‘‘: للمستأجر إیجار المأجور لآخر قبل القبض إن کان عقاراً وإن کان منقولاً فلا۔ فمنہم من قال بعدم جواز بالاتفاق لأنہ إذا تلفت المنفعۃ المعقود علیہا في الإجارۃ بہلاک المأجور یحصل غرر الانفساخ فما لا یجوز بیعہ قبل القبض لا یجوز إجارتہ لأن الإجارۃ ہي بیع المنفعۃ ۔ (۱/۶۷۱ ، المادۃ : ۵۸۶ ، الفصل الثانی) (اسلامی قانون اجارہ:۱۱۶)