محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
دوم :… اگر دوکاندار یا کوئی فرد اس ایجنٹ سے یہ طے کرلے کہ تمہیں فلاں کا م پر اتنا فیصد کمیشن دوںگا، پھر یہ ایجنٹ وہ کام کردے، تو اب اس ایجنٹ کا یہ طے کردہ کمیشن لینا اور دوسرے شخص کا کمیشن دینا دونوں جائز ہیں (۱)، لیکن اس کا جواز چند شرائط کے ساتھ مشروط ہے ۔ (الف) … کمیشن پر جو کام کیا جارہا ہے ، وہ کام بنیادی طور پر جائز ہو ۔ (۲) (ب) …کمیشن ایجنٹ (Commission Agent)صحیح مال فراہم کرے،یا جو کام اس کے سپرد کیا گیا ہے اس کو صحیح طریقہ سے پایۂ تکمیل تک پہنچائے ۔ (۳) (ج) …کمیشن دینے والا اس چیز کی قیمت بڑھاکر وصول نہ کرے ، بلکہ اپنی طرف سے کمیشن کی رقم ادا کرے ۔ ------------------------------ (۱) ما فی ’’ الفتح الربانی ‘‘: عن أبي سعید الخدري أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم نہی عن استئجار الأجیر حتی یبین لہ أجرہ ۔ (۱۵/ ۱۲۲) (۲) ما فی ’’ الفقہ الإسلامی وأدلتہ ‘‘: أن تکون المنفعۃ المعقود علیہا مباحۃ شرعاً: کاستئجار کتاب للنظر والقراء ۃ فیہ والنقل منہ ، واستئجار دار للسکنی فیہا، وشبکۃ للصید ونحوہا ۔ (۵/۳۸۱۷) ما فی ’’ الفوائد البہیۃ في القواعد الفقہیۃ للشیخ محمود حمزۃ ‘‘:’’ الاستئجار علی المعصیۃ لا یجوز‘‘۔ (ص:۷۶، بحوالۃ الفقہ الإسلامي وأدلتہ :۵/۳۸۱۷) (۳) ما فی ’’ رد المحتار علی الدر المختار ‘‘: قال في التاتارخانیۃ: وفي الدلال یجب أجر المثل وما تواضعوا علیہ أن في کل عشرۃ دنانیر بہ، وإن کان في الأصل فاسداً لکثرۃ التعامل وکثیر من ہذا غیر جائز فیجوز لحاجۃ الناس إلیہ کدخول الحمام ۔’’ درمختار ‘‘ ۔ (۹/۸۷ ، مطلب في أجرۃ الدلالۃ)