محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
لیکن لوگ ان کی (بہادری وغیرہ کی) وجہ سے فتنہ میں مبتلا ہورہے تھے اور مجھے اندیشہ تھا کہ لوگ (اللہ تعالی کے بجائے ) ان پر بھروسہ کرنے لگیں گے، اور اس طرح غلط عقیدہ میں مبتلا ہوجائیں گے، اس لئے میں نے چاہا کہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ جو کچھ کرتا ہے اللہ کرتا ہے ،اور لوگ کسی فتنہ کا شکار نہ ہوں‘‘ ۔ (۱) ان تمام مذکورہ بالا حوالوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت عمرؓ نے معزولی مفادِ عامہ کے خاطر ہی کی تھی، نیز یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ شریعت نے مدتِ ملازمت کا معاملہ فریقین کی باہمی رضامندی پر چھوڑا ہے ۔ البتہ بعض اوقات کسی کو ملازمت پر مقرر کرتے ہوئے معاہدہ میں یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ اس کو اتنی مدت کیلئے ملازمت پر رکھا جائیگا، اور پھر مقررہ مدت سے پہلے ہی اس کو ریٹائر (Retire) کردیا جائے تو اس کاحکم کیاہوگا؟ شرعی اعتبار سے اس کا رخ متعین کرنے کے لئے پہلے یہ دیکھا جائے گا ،کہ اس طرح قبل از وقت ریٹائر منٹ سے ا س کومجرم قرار دیا گیا ہے ، یا مجرم سمجھا جارہا ہے، یا اس کے کسی واجبی قانونی حق کا انکار کیا گیا ہے، ایسی صورت میں قبل از وقت ریٹائر منٹ کو اس کے خلاف فیصلہ سمجھا جائے گا، جس کے لیے اس ملازم کو صفائی کا موقع دینا ------------------------------ (۱) ما في ’’ التاریخ الأمم والملوک لأبي جعفر محمد بن جریر الطبري ‘‘ : ’’ إني لم أعزل خالداً عن سخطۃ ولا خیانۃ ، ولکن الناس فتنوا بہ فخفت أن یوکلوا إلیہ ویبتلوا بہ فأجبت أن یعلموا أن اللہ ہو الصانع ، وأن لا یکونوا یعرض فتنۃ ‘‘ ۔ (۳/۱۶۷؍۱۶۸ ، مکتبۃ قاہرہ)