محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
کرایہ دار کو اس جائداد سے نفع اٹھانے کا جو حق حاصل ہے ،اس کے عوض میںمالک کرایہ دار کو ایک معین رقم ادا کرے گا، تو یہ بدل الخلو شرعاً جائز ہے، اس لئے کہ(بدل الخلوکی) یہ رقم اس رضاکارانہ دست برداری کا معاوضہ ہے ، جس کے تحت کرایہ دار ،جس منفعت کا خود حقدار تھا اس کو مالک کے حق میں چھوڑرہا ہے، لیکن اگر کرایہ داری کی مدت ختم ہوگئی تھی ،اور عقدِ اجارہ کی تجدید صراحتاً یا عقدِ اجارہ کی شرائط کے تحت خود کار طریقے سے ضمناً نہیں ہوئی تھی، تو اس صورت میں بدل الخلو(پگڑی) کے طور پر کوئی رقم لینا جائز نہیں، اس لئے کہ مدتِ اجارہ ختم ہونے پر کرایہ دارکا حق ختم ہوگیا ، اب مالک اس جائداد کا زیادہ حقدار ہے ۔ رابعاً:… اگر مدتِ اجارہ کے دوران پرانے کرایہ داراور نئے کرایہ دار کے درمیان یہ معاہدہ ہوجائے کہ پرانا کرایہ دار اپنے بقیہ حقِ کرایہ داری سے اس نئے کرایہ دار کے حق میں دست بردارہوجائے گا، اور اس کے عوض وہ بدل الخلو کے طور پر کوئی معین رقم نئے کرایہ دار سے وصول کرے گا جو اصل (ماہانہ یا سالانہ) کرایہ کے علاوہ ہوگی، تو یہ معاہدہ شرعاً جائز ہے، بشرطیکہ ان شرائط کی رعایت رکھی گئی ہو جو اول کرایہ دار اور مالکِ مکان کے درمیان طے ہوئی تھیں، اوران رائج الوقت قوانین کی بھی رعایت رکھی گئی ہو جو احکامِ شرعیہ کے موافق ہوں۔ البتہ طویل المدت اجارہ میں پرانے کرایہ دار کے لئے مالک کی اجازت کے بغیر، وہ جائداد دوسرے کرایہ دار کو دینا اور اس پر بدل الخلو وصول کرنا جائز نہیں، اس لئے کہ ایسا کرنا ان قوانین کے خلاف ہے جو عقدِ اجارہ کے بارے میں وضع کئے گئے ہیں۔ اور اگر مدتِ اجارہ ختم ہوجانے کے بعد پہلا کرایہ دار کسی نئے کرایہ دار سے کرائے کا