محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
اور یہ حضراتِ حنفیہ رحمہم اللہ کے یہاں جائز نہیںہے ،(۱) جبکہ فقہائے شافعیہ رحمہم اللہ کے نزدیک قرض میں مدت مقرر کرنا جائز ہے،(۲) حضراتِ مالکیہ رحمہم اللہ کے نزدیک تاجیل صرف جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے،(۳) سلف میں حضرت عبد اللہ بن عمر،ؓ حضرت عطاء ؒ، حضرت عمرو بن دینار ؒ وغیرہ اہلِ علم حضرات بھی قرض میں تاجیل کے قائل ہیں، (۴) البتہ ہمارے زمانہ کے تعاملِ ناس اور ضرورت کے پیشِ نظر جمہور کی رائے قبول کرلی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ ------------------------------ (۱) ما فی ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : ولا یثبت الأجل في القروض عندنا کما في الخانیۃ ۔ (۵/۳۶۸، الباب السابع والعشرون في القرض والدین، الہدایۃ:۳/۷۶، باب المرابحۃ والتولیۃ) (۲) ما فی ’’ أحکام القرآن للجصاص‘‘ : وأجاز الشافعي التأجیل في القرض۔ (۱/۵۶۸) (۳) ما فی ’’ اعلاء السنن ‘‘ : وقال مالک واللیث: یتأجل الجمیع بالتأجیل ۔۔۔۔۔۔۔۔ وقال أبوحنیفۃ : کل دین یصح تأجیلہ إلی القرض، فإن تأجیلہ لا یصح، ولنا أن الأجل یقتضي جزاء من العوض، والقرض لایحتمل الزیادۃ والنقص في عوضہ ۔ (۴/۵۷۴ ، القرض لا یتأجل بالتأجیل) ما فی ’’ الکتاب ‘‘: وقولہ تعالی: {یا أیہا الذین آمنوا إذا تداینتم بدین إلی أجل مسمی فاکتبوہ} ۔ (سورۃ البقرۃ : ۲۸۲) ما فی ’’ أحکام القرآن للجصاص ‘‘: قال الإمام حجۃ الإسلام أبو بکر أحمد بن علي الرازي: وقد احتج بعضہم في جواز التاجیل في القرض بہذہ الآیۃ۔۔۔۔۔۔۔۔ قال أبوبکر: قولہ تعالی:{إذا تداینتم بدین إلی أجل مسمی} قد اشتمل علی کل دین ثابت مؤجل ۔ (۱/۵۸۵؍۵۸۶ ، باب عقود المداینات) (۴) ما فی ’’ فتح الباری لإبن حجر‘‘ : عن أبي ہریرۃ رضي اللہ عنہ : عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’ أنہ ذکر رجلاً سأل بعض بني إسرائیل أن یسلفہ ألف دینار، فدفعہا إلیہ إلی أجل مسمی ‘‘ ۔ وقال ابن عمر رضي اللہ عنہما وعطاء : إذا أجَّلہ في القرض جاز ۔ (۵/۴۳۲ ، باب الشروط في القرض ، رقم الحدیث : ۲۷۳۴)