محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
جاپان کا کہنا ہے کہ یہ تجارتی صورت ۱۸۴۷ء سے ایک صدی پہلے ہی جاپان میں رائج ہوچکی تھی ، بہر حال برائی اور گناہ کی بنیاد ڈالنے پر جاپان اور شکاگو دوڑمیں لگے ہوئے ہیں( اللہ حفاظت فرمائے)۔ اب رہی یہ بات کہ اس کی صورت کیا ہو تی ہے ،تو ’’انسائیکلو پیڈیا آف برٹانکا‘‘ میں لکھا ہے ، کہ یہ وہ عقدِ تجارت ہے جس کا مقصد کسی چیز کی معین مقدار کو مستقبل کی کسی معین تاریخ میں بیچنا یا خریدناہوتا ہے،بہرحال اس میں ایک چیز پر دسیوں نہیںبلکہ کئی بیوع بغیر ایک دوسرے کے قبضہ کے ہوتی ہیں ، لہذا شرعی نقطۂ نظر سے یہ قطعاًحرام ہے، اس کے جواز کا سوال ہی پیدا نہیں ہو نا چاہیے۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما فی ’’ الصحیح المسلم ‘‘: عن حکیم بن حزام قال: ’’نہاني رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أن أبیع ما لیس عندی ‘‘ ۔ عن عبد اللہ بن عمر أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : ’’ من اشتری طعاماً فلا یبیعہ حتی یستوفیہ ویقبضہ ‘‘ ۔ (۲/۵) ما فی ’’ السنن الترمذی ‘‘: عن عمرو بن شعیب قال: حدثني أبي عن أبیہ حتی ذکر عبد اللہ بن عمرو أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: ’’ لا یحل سلف وبیع ، ولا شرطان في بیع، ولا ربح ما لم یضمن ، ولا بیع ما لیس عندک ‘‘ ۔ (ص : ۲۳۳ ، ابواب البیوع ، باب ما جاء فی کراہیۃ بیع ما لیس عندہ) ما فی ’’ تحفۃ الأحوذی ‘‘: وقیل : ہو أن یقرضہ قرضاً ، ویبیع منہ شیئاً بأکثر من قیمتہ ، فإنہ حرام، لأن قرضہ رَوَّجَ متاعہ بہذا الثمن، وکل قرض جر نفعاً فہو حرام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’ ولا ربح ما لم یضمن ‘‘ یرید بہ: الربح الحاصل من بیع اشتراہ قبل أن یقبضہ ، وینتقل من ضمان البائع إلی ضمانہ فإن بـیعہ فاسد، وفـي ’’ شرح السنۃ ‘‘ : قیل : معنا ہ إلی الـربح فی کل شيء =