محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
اس کو فروخت کرنا شرعاً جائز ہوجائیگا،مگر اس علیٰحدہ (تخلیہ)کرنے میں قدرے تفصیل ہے، چونکہ اب اس طرح کی بیع بکثرت ہونے لگی ہے، اور لوگ اس طریقہ کار کو شرعی طور پر نہیں کرتے ہیں، اس لئے ہر صورت کا حکم مختصراً علیحدہ علیحدہ ذکر کیا جارہا ہے ۔ (۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما فی ’’درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام‘‘:إذا أذن البائع للمشتري بتسلیم المبیع الذي یکون بحضرۃ المشتري أولاً ومفرزاً ثانیاً وغیر مشغول بحق الغیر ثالثاً، بحیث لا یکون مانع ولا حائل بین المشتري وقبض المبیع اھـ ۔ (۱/۲۵۱، المادۃ: ۲۶۳، وکذا في فتاوی قاضیخان علی ہامش الہندیۃ : ۲/۲۵۶؍۲۵۸، باب في قبض المبیع وما یجوز من التصرف قبل القبض وما لا یجوز، وکذا في غمز عیون البصائر شرح الأشباہ والنظائر لإبن نجیم الحنفي : ۲/۲۷۸،۲۷۹، کتاب البیوع) ما فی ’’قواعد الفقہ‘‘: وبقاعدۃ فقہیۃ: ’’ التخلیۃ تسلیم ‘‘ ۔ (ص: ۶۹) ما فی ’’ البدائع الصنائع‘‘: ولا یشترط القبض بالبراجم ، لأن معنی القبض ہو التمکن والتخلي وارتفاع الموانع عرفاً وعادۃً حقیقۃً ۔ اہـ ۔ (۶/۵۷۱، کتاب البیوع، فصل فیما یرجع إلی المعقود علیہ) ما فی ’’الکتاب‘‘: وقولہ تعالی:{ورجلاً سلماً لرجل}۔ (سورۃ الزمر:۲۹) ما فی ’’ بدائع الصنائع‘‘: وأما تفسیر التسلیم والقبض: فالتسلیم والقبض عندنا ہو التخلیۃ، والتخلي أن یخلي البائع بین المبیع وبین المشتري برفع الحائل بینہما علی وجہ یتمکن المشتري من التصرف فیہ فجعل البائع مسلماً للمبیع والمشتري قابضاً لہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ثم لا خلاف بین أصحابنا في أن أصل القبض یحصل بالتخلیۃ في سائر الأموال ۔ (۷/۲۳۶؍۲۳۷، فصل في حکم البیع)