محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
جس کو شریعت نے لازم نہیں کیا، اگر کوئی شخص یا ادارہ علاج ومعالجہ کو اجرت کا جزء قراردے تو پھر عقدِ اجارہ باطل ہوجائے گا، کیوںکہ اس میں جہالت ہے ،وہ اس طرح کہ علاج کی ضرورت کبھی پیش آتی ہے اور کبھی نہیں ، کبھی اس کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے اور کبھی کم ہوتی ہے، غرضیکہ اس میں جہالت ہوتی ہے، اس لیے اس کو اجرت کا جزء بنانے سے عقدِ اجارہ باطل ہوجائے گا۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما فی ’’ درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام ‘‘ : یشترط في الإجارۃ أن تکون المنفعۃ معلومۃ بوجہ یکون مانعاً للمنازعۃ فعلیہ إذا کانت المنفعۃ مجھولۃ بحیث تؤدي إلی المنازعۃ تکون فاسدۃ ۔ (۱/۵۰۴ ، الفصل الثالث في شروط صحۃ الإجارۃ) ما فی ’’ درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام ‘‘ : یشترط لصحۃ الإجارۃ أي لعدم فسادہا أولاً أن تکون الأجرۃ معلومۃ تماماً قدراً و نوعاً، أي لا یکون شيء منہا مجہولاً کلاً أو بعضاً لأن جہل الأجرۃ یفضي إلی المنازعۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وإذا کانت الأجرۃ کلہا أو بعضہا مجہولۃ تکون الإجارۃ فاسدۃ سواء کانت من المثلیات أوالقیمات أو منفعۃ أخری ۔ (۱/۵۰۳، کتاب الإجارۃ ، الفصل الثالث في شروطالإجارۃ، الفتاوی الہندیۃ : ۴/۴۱۱، کتاب الإجارۃ ، وأما شرائط الصحۃ ، الفقہ الإسلامي وأدلتہ : ۵/۳۸۰۹ ، شروط صحۃ الإجارۃ) ما فی ’’ السنن الکبری للبیہقي ‘‘ : عن أبي ہریرۃ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم:’’ من استأجر أجیراً فلیعلمہ أجرہ ‘‘ ۔ (۶/۱۹۸ ، رقم الحدیث : ۱۱۶۵۱ ، کتاب الإجارۃ ، باب لا تجوز الإجارۃ حتی تکون معلومۃ وتکون الاجارۃ معلومۃ) ما في ’’ الہدایۃ ‘‘ : ولا یصح حتی تکون المنافع معلومۃ والأجرۃ معلومۃ لما روینا، ولأن الجہالۃ في المعقود علیہ وفي بدلہ تفضي إلی المنازعۃ کجہالۃ الثمن والمثمن في المبیع ۔ (۳/۲۹۳ ، کتاب الإجارۃ) (اسلامی قانون اجارہ: ۱۵۱)