محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
میں باہمی طے شدہ رقم کے عوض اپنے اس حق سے جو اس نے اصل مالک سے عوض دے کر حاصل کیاتھا دست بردار ہو سکتا ہے ۔ (۱) ۳-… مالکِ مکان نے پگڑی لئے بغیر کرایہ پر دیا اوراجارہ کی مدت اصل معاہدہ میں مقررنہیں کی گئی ہو تو اس صورت میں مالکِ مکان کو حق ہوگا کہ جب چاہے مکان خالی کرالے، البتہ مالک کو چاہیے کہ خالی کرانے کا نوٹس اور خالی کرنے کی تاریخ کے ------------------------------ (۱) ما في ’’ المبسوط للسرخسي والفتاوی الہندیۃ ‘‘ : فإن آجرہا بأکثر مما استأجرہا بہ تصدق بالفضل إلا أن یکون أصلح منہا بناء أو زاد فیہا شیئاً فحینئذٍ یطیب لہ الفضل ، وعلی قول الشافعي یطیب لہ الفضل علی کل حال بناء علی أصلہ أن المنافع کالأعیان الموجودۃ حکماً فتصیر مملوکۃ لہ بالعقد مسلمۃ إلیہ بتسلیم الدار فکان بمنزلۃ من اشتری شیئاً وقبضہ ثم باعہ وربح فیہ فالربح یطیب لہ لأنہ ربح علی ملک حلال لہ ، ولکنا نقول: المنافع لم تدخل في ضمانہ وإن قبض الدار بدلیل أنہا لو انہدمت لم یلزمہ الأجر فہذا ربح فضل لا علی ضمانہ ونہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن ربح ما لم یضمن ۔ (۱۵/۱۳۰ ، کتاب الإجارۃ ، باب إجارۃ الدور والبیوت، مکتبۃ دارالمعرفۃ بیروت ، وکذا في الفتاوی الہندیۃ : ۴/۴۲۵ ، الباب السابع في الإجارۃ والمستأجر) ما في ’’ فقہ السنۃ للسید سابق ‘‘ :ویجوز لہ أن یوجر العین المستأجرۃ إذا قبضہا بمثل ما آجرہا لہ أو أزید أو أقل ولہ أن یأخذ ما یسمی بالخلو ۔ (۳/۲۱۶ ، باب تأجیر العین المستأجر) وما فیہ أیضاً : ویجوز لہ أن یؤجر العین المستأجرۃ إذا قبضہا بمثل ما آجرہا أو أزید أو أقل ولہ أن یأخذ ما یسمی بالخلو ۔ (فقہ السنۃ للسید سابق : ۳/۲۱۶ ، باب تاخیر العین المستأجر)