محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
کرنا شرعاً بالکل جائز اور درست ہے، اگر ایجاب وقبول ، کرایہ یا مدت ان تینوں میں سے کوئی ایک چیز بھی واضح اور طے شدہ نہ ہو تی تو پھر عقد میں جہالت کی وجہ سے عقد جائز نہ ہوتا ، اس لیے اس طرح کا عقد کرتے وقت ان چیزوں کو وضاحت کے ساتھ طے کرلینا ضروری ہے ۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما في ’’ الدر المختار مع رد المحتار‘‘ : کما قال العلامۃ الحصکفي : إن رکنہا الإیجاب والقبول ، وشرطہا کون الأجرۃ والمنفعۃ معلومتین لأن جہالتہما تفضي إلی المنازعۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویعلم النفع ببیان المدۃ کالسکنی والزراعۃ مدۃ کذا۔ ’’ درمختار ‘‘ ۔ (۹/۶۔۸ ، کتاب الإجارۃ) ما في ’’ المغني لإبن قدامۃ ‘‘ : وإذا وقعت الإجارۃ علی مدۃ معلومۃ بأجر ۃ معلومۃ فقد ملک المستأجر المنافع وملکت علیہ الأجرۃ کاملۃ في وقت العقد إلا أن یشترطا أجلاً ۔ (۵/۲۶۲ ، کتاب الإجارات) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ والہدایۃ ‘‘ : ومنہا أن یکون المعقود علیہ وہو المنفعۃ معلوماً علماً یمنع المنازعۃ فإن کان مجہولاً جہالۃ مفضیۃ إلی المنازعۃ یمنع صحۃ العقد وإلا فلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ومنہا أن تکون الأجرۃ معلومۃ ۔ (۴/۴۱۱ ، کتاب الإجارۃ ، الباب الأول في تفسیر الإجارۃ ، وکذا في الہدایۃ مع الدرایۃ : ۳/۲۹۳ ، کتاب الإجارۃ) ما في ’’ قواعد الفقہ ‘‘ : بقاعدۃ فقہیۃ : ’’ جہالۃ المعقود علیہ تفسد العقد ‘‘ ۔ (ص : ۷۵) (اسلام کا قانون اجارہ:۴۲۳)